کریملن: ٹرمپ کے سخت مؤقف کا مطلب امریکہ روس مذاکرات کا خاتمہ نہیں

ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان مکالمہ اس وقت بہتر ہوا تھا جب ٹرمپ نے جنوری میں صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔

Russian President Vladimir Putin meets with Interim President of the Republic of Mali Assimi Goita, in Moscow / Reuters

کریملن کا کہنا ہے کہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں جاری جنگ کے باعث روس کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنا، ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں کے خاتمے کامفہوم نہیں رکھتا۔

ٹرمپ نے پیر کے روز اپنے نئے مؤقف کا اعلان کرتے ہوئے روس کو یوکرین میں جنگ بندی کے لیے 50 دن کی مہلت دی۔ بصورتِ دیگر روس کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
علاوہ ازیں  ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کو مزید میزائل فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا، جسے روسی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

جب ٹرمپ کے ان بیانات کے بارے میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ پیش رفت امریکہ اور روس کے تعلقات کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات کے خاتمے کی علامت ہے، تو انہوں نے کہا:"ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا مطلب یہ ہے۔ یہ دو مختلف معاملات ہیں۔ ایک مسئلہ یوکرین میں حل ، جبکہ دوسرا معاملہ ہمارے دوطرفہ تعلقات سے متعلق ہے۔"

ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان مکالمہ اس وقت بہتر ہوا تھا جب ٹرمپ نے جنوری میں صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔
تاہم، کریملن کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے ممکنہ جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی شرائط کی وجہ سے ٹرمپ کی مایوسی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

روسی اور یوکرینی حکام نے اس سال کے آغاز میں ترکیہ میں دو مرحلوں پر مشتمل امن مذاکرات کیے، جن کے نتیجے میں قیدیوں اور فوجی اہلکاروں کی لاشوں کے تبادلے پر معاہدہ ہوا۔

تاہم، تیسری دور کی بات چیت کے لیے تاحال کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی، اور دونوں فریق اب بھی جنگ بندی یا کسی حتمی امن معاہدے کی شرائط پر متفق ہونے سے بہت دور ہیں۔