بنگلہ دیش کی عدالت نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کو انسانیت سوز جرائم میں ملوث قرار دے دیا

حسینہ کو 'تین دفعات میں مجرم پایا گیا'، جن میں اکسانا، قتل کا حکم دینا، اور مظالم کو روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔ "ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک ہی سزا دی جائے — یعنی سزائے موت۔"، جج

By
شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش میں اپنی سزا سے پہلے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔ [فائل فوٹو] / AA

ایک بنگلہ دیشی عدالت نے پیر کے روز برطرف شدہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو انسانیت سوز جرائم  کی پاداش میں سزائے موت صادر کر دی۔

78 سالہ حسینہ نے بھارت سے  لوٹ کر عدالت  میں پیشی کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ مقدمہ اس بات کی تفتیش کر رہا تھا کہ آیا کہ انہوں نے طلباءکی قیادت میں ہونے والے بغاوتی مظاہرے کے دوران مہلک کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں برطرف کیا گیا تھا۔

یہ طویل متوقع فیصلہ قومی ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھایا گیا اور اگست 2024 میں ان کی برطرفی کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات سے قبل سامنے آیا ہے۔

جج غلام  مرتضیٰ نے ڈھاکہ کی بھری  عدالت میں فیصلہ پڑھتے  ہوئے کہاکہ ، "انسانیت کے خلاف جرائم ثابت ہو چکے ہیں۔"

غلام  مرتضی نے کہا کہ حسینہ کو 'تین دفعات میں مجرم پایا گیا'، جن میں اکسانا، قتل کا حکم دینا، اور مظالم کو روکنے میں ناکامی شامل ہیں۔ "ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک ہی سزا دی جائے — یعنی سزائے موت۔"

سابق داخلہ وزیر اسد الزمان خان کمال، جو خود مفرور ہیں، کو بھی انسانیت کے خلاف چار دفعات میں مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ سابق پولیس سربراہ چوہدری عبداللہ المامون، جو عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے خود کو قصوروار قرار دیا تھا، کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

حسینہ کے آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی افراتفری کا شکار ہے، اور فروری 2026 میں متوقع انتخابات کی مہمات میں تشدد نے بھی خلل ڈالا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ جب حسینہ نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کی تو کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے، اور انہی ہلاکتوں کو ان کے خلاف مقدمے کا مرکزی عنصر بنایا گیا۔

سربراہِ استغاثہ تاج الاسلام نے فیصلے سے قبل کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ عوام کی "عدل کی پیاس پوری ہو گی، اور یہ فیصلہ انسانیت کے خلاف جرائم کے خاتمے کی علامت بنے گا۔"

استغاثہ نے قتل کوو غارت کو روکنے  میں ناکامی سمیت پانچ الزامات دائر کیے تھے، جو بنگلہ دیشی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

شیخ حسینہ نے پیر کو اپنے خلاف سنائی گئی سزا اور ملزم قرار دیے جانے کو "جانب دارانہ اور سیاسی طور پر مقصود" قرار دیا۔

انہوں نے بھارت میں خفیہ ٹھکانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا، "میرے خلاف جو فیصلے سنائے گئے ہیں وہ ایک جعلی ٹریبونل نے کیے ہیں جو ایک غیر منتخب حکومت  کہ جس کے پاس کوئی جمہوری مینڈیٹ نہیں،  کے تحت قائم کیا گیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "یہ فیصلے جانبدارانہ اور سیاسی مقاصد کے تحت کیے گئے ہیں۔"

حسینہ نے مزید کہا، "میں ایک مناسب ٹریبونل میں جہاں شواہد کو منصفانہ طور پر پرکھا اور جانچا جا سکے، اپنے خلاف الزامات  کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتی۔"