اگر ٹرمپ بیجنگ کے ساتھ مل کر یوکرین پر کام کریں تو نوبل امن انعام جیت سکتے ہیں: وانگ
یوکرین کے لیے اقوام متحدہ کی امن فوج میں ترکیہ، چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیے: ہنری ہوئیاؤ وانگ
چین کے معروف پالیسی مشیر اور چین اور گلوبلائزیشن سینٹر کے بانی 'ہنری ہوئیاؤ وانگ' نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، یوکرین جنگ کے خاتمے کے لئے، چین کے ساتھ مل کر کام کریں تو اگلے سال نوبل امن انعام جیت سکتے ہیں ۔
ہفتے کے روز استنبول میں نویں ٹی آر ٹی ورلڈ فورم کے موقع پر ٹی آر ٹی ورلڈ کےلئے ایک انٹرویو میں وانگ نے، یوکرین میں صرف مغربی ممالک پر ہی نہیں بلکہ ترکیہ، چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کی بھی شمولیت پر مبنی، ایک امن فوج کی تعیناتی کی تجویز پیش کی ہے۔
وانگ نے کہا ہے کہ "چین، جو اقوام متحدہ کے5 مستقل اراکین میں سب سے زیادہ امن مشن فوجی فراہم کرتا ہے، اور بھارت، جو ایک اور بڑا شراکت دار ہے، دونوں مدد کر سکتے ہیں۔ اسی طرح دیگر برکس ممالک بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں"۔
انہوں نے تجویز دی ہے کہ ترکیہ ایک وسیع تر کثیر القومی امن مشن میں ثالثی یا شرکت کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ وہ پہلے بھی استنبول میں روس۔یوکرین امن مذاکرات کی میزبانی کر چُکا اور بحیرہ اسود اناج راہداری جیسے اہم معاہدے میں مدد فراہم کر چُکا ہے۔
وانگ نے کہا ہے کہ "ترکیہ کو ماسکو اور کیف دونوں کا اعتبار حاصل ہے اور اس تنازعے کو روکنے کے لئے کسی بھی سنجیدہ عالمی کوشش کا حصہ بننے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے "۔
وانگ نے کہا کہ یہ تجویز ایک ایسے وقت میں عالمی تعاون کے لیے ایک عملی راستہ پیش کرتی ہے کہ جب دنیا واضح طور پر ایک کثیر قطبی دور میں داخل ہو رہی ہے۔مغربی اور غیر مغربی امن مشن کے فوجیوں کو ایک نئے اقوام متحدہ اختیار کے تحت یکجا کرنا "حقیقی عالمی اتحاد" کی علامت ہوگا اور دھڑوں کے درمیان قطب بندی کو کم کرے گا۔
وانگ نے کہا کہ حالیہ بوسان سربراہی اجلاس ایک مثبت اشارہ تھا۔ اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور ٹرمپ نے یوکرین تنازعے پر بات کی تھی۔ اگلا قدم اس مکالمے کو ایک مشترکہ امن اقدام میں تبدیل کرنا ہونا چاہیے۔
'ترکیہ نے زبردست نرم طاقت کا مظاہرہ کیا ہے'
وانگ نے ترکیہ کے بڑھتے ہوئے سفارتی و اقتصادی اثر و رسوخ کی تعریف کی اور کہا ہے کہ ترکیہ ایک ایسا کردار ہے جو ایک کثیر قطبی عالمی نظام میں مغرب اور گلوبل ساؤتھ دونوں کے ساتھ اعتماد برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ"ترکیہ نے زبردست نرم طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ واحد ملک ہے جس نے روس اور یوکرین کو ایک میز پر لانے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ فلسطین اور روس۔یوکرین جنگ جیسے مسائل پر ایک منفرد اور متوازن موقف برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ یہ خصوصیت بحیثیت ایک ثالث کے اس کے اعتبار میں اضافہ کرتی ہے"۔
وانگ نے کہا ہےکہ صدر رجب طیب اردوعان کا جملہ "دنیا پانچ سے بڑی ہے" سے ترکیہ کی سفارتی حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ جملہ کثیر قطبیت کی طرف عالمی تبدیلی اور منصفانہ بین الاقوامی نمائندگی کے مطالبے کا اظہار ہے۔
انہوں نے استنبول ایئرپورٹ کی صلاحیت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ"یہ شاید یورپ کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے۔ یہ ترکیہ کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اقتصادی اقدامات سے لے کر تنازعات میں ثالثی کے کردار تک، ترکیہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ فعال ہو رہا ہے۔"
انہوں نے ترکیہ کے ساتھ چین کی گہری ہوتی اقتصادی شراکت داری کو اس بدلتے ہوئے نظام کی ایک ٹھوس عکاسی قرار دیا ہے۔انہوں نے چینی برقی گاڑیوں کی کمپنی بی وائی ڈی کے ترکیہ میں پلانٹ لگانے کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "چین ترکیہ میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا خواہش مند ہ ہے۔ یہ پلانٹ ملازمتیں، ٹیکس آمدنی، اور مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیاں فراہم کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں سے مقابلے میں مددکرے گا۔ یہ چیز دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو گی"۔
عالمی ری سیٹ سے 'جی 2' تک
وانگ نے کہا کہ ٹی آر ٹی ورلڈ فورم میں ان کے تجربے نے ایک تبدیلی کی دنیا کی روح کو اجاگر کیا۔ "یہ ملاقات واقعی ایک اچھا آغاز ہے،" انہوں نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی کی قیادت نے مکالمے کو فروغ دیا اور فورم کے عالمی ری سیٹ پر زور نے یہ ظاہر کیا کہ دنیا کس سمت جا رہی ہے — شمولیت، تعاون، اور توازن کی طرف۔
وانگ نے کہا کہ حالیہ ٹرمپ-شی سربراہی اجلاس نے امریکہ اور چین کے تعلقات پر عالمی توجہ کے ایک نئے مرحلے کو اجاگر کیا۔ ٹرمپ نے اسے "جی 2" سربراہی اجلاس قرار دیا — ایک اصطلاح جو امریکہ اور چین کو عالمی امور کے شریک رہنما کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔
وانگ نے نوٹ کیا کہ اگرچہ چین باضابطہ طور پر "جی 2" تصور کی حمایت نہیں کرتا، لیکن دونوں ممالک کے عالمی وزن کی حقیقت اس طرح کے تعاون کو ناگزیر بناتی ہے۔
انہوں نے کہا، "صدر شی نے کہا کہ 'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا' اور 'چینی قوم کی تجدید' کے تصورات ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں — یہ ایک دوسرے کے لیے تکمیلی ہو سکتے ہیں۔"
اقوام متحدہ میں اصلاحات: پی 5 سے جی 21 تک
اقوام متحدہ میں اصلاحات کے حوالے سے — جو ٹی آر ٹی ورلڈ فورم اور عالمی سفارت کاری میں ایک بار بار آنے والا موضوع ہے — وانگ نے ان تجاویز کی بھرپور حمایت کی جن کے تحت سلامتی کونسل کی نمائندگی کو پانچ مستقل اراکین سے آگے بڑھایا جائے۔
انہوں نے کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ صدر اردگان کا پیغام — 'دنیا پانچ سے بڑی ہے' — بالکل درست ہے۔"
وانگ نے تجویز دی کہ موجودہ پانچ مستقل اراکین اپنی نشستیں برقرار رکھیں، جبکہ سولہ اضافی اراکین "ایسوسی ایٹ مستقل اراکین" بنیں۔ ایسوسی ایٹ اراکین کو انفرادی ویٹو کا حق نہیں ہوگا، لیکن وہ اجتماعی ویٹو کا استعمال کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا، "یہ اقوام متحدہ کو زیادہ جمہوری اور کثیر قطبی حقیقت کی عکاسی کرنے والا بنائے گا۔"