بنگلہ دیش کے رہنما طالب علم کی رسم جنازہ میں لاکھوں افرادکی شرکت

ہ " اپنی سرزمین اور اس کی خودمختار حدود سے محبت کرنے والے  لاکھوں بنگلہ دیشیوں کے درمیان زندہ رہیں گے۔" ایک شہری

By
شریف عثمان ہادی کا قتل بنگلہ دیش بھر میں احتجاج اور بے امنی کا باعث بنا۔ / Reuters

ہفتہ کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں لاکھوں  سوگواروں نے ایک طالب علم رہنما کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی ، یہ جنازہ  اس کے قتل کے خلاف دو روزہ پرتشدد احتجاجات کے بعد ہوا۔

شریف عثمان ہادی پچھلے سال کے جمہوریت نواز بغاوت کے اہم  کارندے تھے اور جمعرات کو سنگاپور کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے، جب وہ ڈھاکہ کی ایک مسجد سے نکل رہے تھے تو نقاب پوش مسلح افراد نے انہیں گولی مار دی تھی۔

پارلیمان کی عمارت کے سامنے، جہاں نمازِ جنازہ ادا کی گئی، باڈی کیم پہنے پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔

ہادی کی لاش، جو جمعہ کو دارالحکومت لائی گئی تھی، ڈھاکہ یونیورسٹی کی مرکزی مسجد میں دفن کر دی گئی۔

ملک کے عبوری رہنما محمد یونس نے ایک جذباتی خطاب میں کہا کہ 'ہم الوداع کہنے نہیں آئے'۔

'آپ ہمارے دلوں میں ہیں اور جب تک یہ ملک قائم ہے آپ تمام بنگلہ دیشیوں کے دلوں میں رہیں گے'۔

ہادی 32 سالہ تھے، بھارت کے کھلے ناقد تھے اور فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے تھے۔

ایک سرکاری ملازم اقبال حسین سایئکوٹ، جو دور دراز سے نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے آئے تھے، نے کہا کہ ہادی کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ بھارت کے سخت مخالف تھے۔

34 سالہ سائیکوٹ  نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ " اپنی سرزمین اور اس کی خودمختار حدود سے محبت کرنے والے  لاکھوں بنگلہ دیشیوں کے درمیان زندہ رہیں گے۔"

تحقیقات

ہادی کی موت نے ملک گیر بے چینی کو جنم دیا ہے اور جنوبی ایشیا کے اس ملک بھر میں مظاہرین نے واقعے کے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات دیر گئے، لوگوں نے ڈھاکہ میں کئی عمارتوں کو آگ لگا دی، جن میں معروف اخبارات پروتھوم آلو اور دی ڈیلی اسٹار کے دفاتر شامل تھے۔

تنقید کرنے والوں کا الزام ہے کہ یہ اشاعتیں ہمسایہ ملک بھارت کے حق میں ہیں، جہاں بنگلہ دیش کی برطرف شدہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ 2024 کی بغاوت کے دوران ڈھاکہ سے فرار ہو کر پناہ لے چکی ہیں۔

حقوقِ انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہفتہ کو بنگلہ دیش کی عبوری  حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہادی کے قتل اور اس کے بعد ہونے والے پرتشدد واقعات کی 'فوری، جامع، آزاد اور غیر جانبدارانہ' تحقیقات کرائی جائیں۔

اس نے مذہب کی توہین کے الزامات کے بعد ہندو گارمنٹ ورکر دیپو چندر داس کے ہجوم کے ہاتھوں قتل پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

یونس نے کہا کہ مرکزی ضلع میمن سنگھ میں جمعرات کو داس کے قتل کے سلسلے میں سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔