اقوام متحدہ کی اعلی عدالت کا فیصلہ: اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینیوں تک انسانی امداد پہنچے
آئی سی جے کو غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کی قانونی ذمہ داریوں پر رائے دینے کا کام سونپا گیا ہے، جس میں جنگ کے دوران امداد کی کوششوں پر پابندی لگانے کے بارے میں شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت بدھ کے روز غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اشد ضروری انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کی قانونی ذمہ داریوں پر ایک رائے دے گی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال بین الاقوامی عدالت انصاف سے درخواست کی تھی کہ وہ اسرائیل کی قانونی ذمہ داریوں پر مشاورتی رائے دے، خاص طور پر اس وقت جب اسرائیل نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی، جو غزہ میں امداد فراہم کرنے والا اہم ادارہ ہے، کو علاقے میں کام کرنے سے مؤثر طور پر روک دیا تھا۔
مشاورتی آراء قانونی طور پر اہم وزن رکھتی ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس کے اقوام متحدہ اور اس کے عالمی مشنز پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ کارروائی موجودہ امریکی ثالثی کے تحت غزہ میں 10 اکتوبر کو نافذ العمل ہو نے والی جنگ بندی کے معاہدے سے پہلے سے تعلق رکھتی ہے ۔
اگرچہ جنگ بندی اب بھی نافذ ہے، لیکن اس ہفتے کے اوائل میں اسرائیلی افواج نے یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ فلسطینی مزاحمتی جنگجوؤں نے دو فوجیوں کو مارا ہے، مہلک حملے کیے تھے۔ معاہدے کے تحت روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل میں اضافہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ پیر کے روز، حماس کے چیف مذاکرات کار خلیل الحیہ نے مصر کے نشریاتی ادارے القاہرہ نیوز کو بتایا کہ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت امداد کی ترسیل پر عمل کیا ہے۔
اپریل میں سماعت کے دوران، نیدرلینڈز میں فلسطینی سفیر عمار حجازی نے 15 ججوں کے پینل کو بتایا تھاکہ اسرائیل فلسطینیوں کو بھوکا مار رہا ہے، قتل کر رہا ہے اور بے گھر کر رہا ہے، جبکہ ان انسانی تنظیموں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے جو ان کی جانیں بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی جانبدار ہے اور وہ سماعت میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم، ملک نے عدالت کے غور کے لیے 38 صفحات پر مشتمل تحریری بیان پیش کیا۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی پر پابندی
غزہ میں اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) پر اسرائیل کی پابندی جنوری میں نافذ ہوئی۔
اس تنظیم کو بنیامین نیتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ تنظیم حماس سے قریبی روابط رکھتی متاثر ہے۔ UNRWA نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
مارچ میں، اسرائیل نے تین ماہ کے لیے تمام امدادی ترسیل بند کر دی، جس کے نتیجے میں فلسطینی علاقے میں شدید غذائی قلت پیدا ہوئی۔
بالآخر، اسرائیل نے کچھ امداد کی اجازت دی جبکہ ایک متنازعہ منصوبے کو آگے بڑھایا جس کے تحت امداد کی تقسیم کو 'غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن' نامی ایک نجی امریکی حمایت یافتہ گروپ کے حوالے کیا گیا، جسے وسیع پیمانے پر موت کے جال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
حالات مزید خراب ہوتے گئے اور بین الاقوامی غذائی ماہرین نے اگست میں غزہ کے کچھ حصوں میں قحط کا اعلان کیا۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں کافی خوراک موجود ہے اور حماس پر سامان ذخیرہ کرنے کا الزام لگایا۔ GHF نے تازہ ترین جنگ بندی کے بعد اپنی کارروائیاں معطل کر دی ہیں۔
مشاورتی رائے 'غیر پابند'
اقوام متحدہ کی عدالت کی جانب سے جاری کردہ مشاورتی آراء کو 'غیر پابند' قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان کو نظر انداز کرنے پر کوئی براہ راست سزا نہیں ہوتی۔
تاہم، وہ معاہدہ جو اقوام متحدہ کے عملے کو دی جانے والی حفاظتوں کا احاطہ کرتا ہے، کہتا ہے کہ تنازعات کو عالمی عدالت میں مشاورتی رائے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور رائے کو 'فریقین کے لیے فیصلہ کن' کے طور پر قبول کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2024 میں عالمی عدالت سے رہنمائی طلب کی تھی کہ 'اقوام متحدہ کی موجودگی اور سرگرمیوں کے سلسلے میں اسرائیل کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ تاکہ فلسطینی شہری آبادی کی بقا کے لیے ضروری سامان کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔'
ٹرینٹی کالج ڈبلن میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے ماہر مائیک بیکر نے اپریل میں سماعت سے قبل ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، 'ہم ریاستوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ منتخب کریں کہ اقوام متحدہ کہاں کام کرے گا۔ یہ مشاورتی رائے اس بات کو تقویت دینے کا ایک بہت اہم موقع ہے۔'
ICJ نے اسرائیلی پالیسیوں پر دیگر مشورتی آراء بھی جاری کی ہیں۔ دو دہائیوں قبل، عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اسرائیل کی مغربی کنارے کی علیحدگی کی دیوار 'بین الاقوامی قانون کے خلاف' ہے۔ اسرائیل نے اسے سیاسی محرکات سے وابستہ کرتے ہوئے ان کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا ہے۔
گزشتہ سال ایک اور مشاورتی رائے میں، عدالت نے کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ختم کرنے اور بستیوں کی تعمیر کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔
اس فیصلے نے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی تحریک کو ہوا دی۔ اسرائیل نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظر انداز کیا۔
نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری
گزشتہ سال، دی ہیگ میں ایک اور ٹریبونل، بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ دونوں نے انسانی امداد کو محدود کر کے 'جنگ کے ہتھیار کے طور پر بھوک' کا استعمال کیا اور جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے ۔ اسرائیلی حکام نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
ICJ میں مشورتی رائے جنوبی افریقہ کی جانب سے شروع کی گئی جاری کارروائیوں سے الگ ہے، جس میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی غزہ میں نسل کش جنگ میں 68,000 سے زیادہ فلسطینی، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔
وزارت کے اعداد و شمار کو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور آزاد ماہرین کی جانب سے سب سے زیادہ قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل نے ان اعداد و شمار کو مسترد کیا ہے لیکن اپنا کوئی متبادل اعداد و شمار فراہم نہیں کیا۔