شام کے عوام اسد حکومت کے خاتمے کے پہلے سال کا جشن منا رہے ہیں
شامی عوام، آزاد اور محفوظ مستقبل کی امیدوں کے ساتھ، 61 سالہ بعث اقتدار کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منا رہے ہیں
شامی عوام ، اپنے ملک کے ایک آزاد اور محفوظ مستقبل کی طرف گامزن ہونے کی امیدوں کے ساتھ، 61 سالہ بعث اقتدار کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منا رہے ہیں۔
دارالحکومت دمشق کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ معزول بشار الاسد حکومت کے دور میں ہمیں جو سختیاں برداشت کرنا پڑیں وہ اب ختم ہو چکی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ نئی انتظامیہ ، خاص طور پر آزادی، معیشت اور سلامتی کے حوالے سے، شام کو بہتر مستقبل کی طرف لے جائے گی ۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت نے، بجلی اور ملازمین کی تنخواہوں سمیت بنیادی خدمات کی فراہمی کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے عوام کی روز مرّہ زندگی پر براہ راست اثرانداز ہونے والے فیصلوں پر بھی عمل شروع کر دیا ہے۔
جون میں ایک صدارتی فرمان کے ساتھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو 250,000 شامی پاؤنڈ (اس وقت تقریباً $15) سے بڑھا کر 750,000 شامی پاؤنڈ (تقریباً $65) کر دیا گیا ہے۔
اسی دوران، 14 سالہ بمباری کی وجہ سے شدید نقصان کے شکار، بجلی گرِڈوں کی مرّمت کا کام شروع ہو گیا ہے ۔
وزارتِ توانائی نے کہا ہے کہ مرکزی پاور پلانٹوں کی مرّمت، آذربائیجان سے حاصل ہونے والی قدرتی گیس اور ترکیہ کی معاونت سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے ۔
معزول حکومت کے دور میں بجلی روزانہ صرف چند گھنٹوں کے لیے دستیاب تھی، مگر نئی حکومت نے فوری طور پر بجلی کی فراہمی کو روزانہ 8 تا 10 گھنٹے تک بڑھا دیا ہے۔
اس کے علاوہ حلب، حمص اور دمشق جیسے بڑے شہروں کو پندرہ سال کے بعد پہلی بار آزمائشی بنیادوں پر مسلسل 24 گھنٹے بجلی فراہم کی گئی ہے۔
عوامی ذہنوں پر گہرے داغ چھوڑ نے والی صدنایا، خطیب اور المزیہ فوجی جیلیں مستقل طور پر بند کر دی گئی ہیں۔
’’شام ایک بہت بہتر جگہ بنتا جا رہا ہے‘‘
دمشق کےرہائشی کرس ٹومے نے کہا ہے کہ اسد حکومت کے دوران ٹرانسپورٹ تقریباً مفلوج ہو گئی تھی اور ایندھن کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو سروس کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔
"اب ہمیں چند لمحوں میں گاڑیاں مل جاتی ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل دستیاب ہونے کی وجہ سے زندگی واپس معمول پر آ گئی ہے۔شام ایک بہت بہتر جگہ بنتا جا رہا ہے"۔
انہوں نے کہا ہےکہ برسوں تک ملک میں ٹیکنالوجی کا داخلہ بند رہا اور مصنوعی ذہانت کا شعبہ صرف اسی سال ترقی کا آغاز کر رہا ہے۔
ٹومے نے کہا ہے کہ "تبدیلی ہم سے شروع ہوئی۔جب لوگ بدلتے ہیں تو معاشرہ بھی بدل جاتا ہے"۔
"14سال بعد واپس آنا بذاتِ خود ایک انقلاب ہے"
14 سال بعد شام واپس آنے والے شہری زین العابدین نے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کے دور میں سڑک پر بات کرنا بھی منع تھا۔ماضی میں رائے کا اظہار ممنوع تھا۔ آج ہم آرام سے اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں"۔
انہوں نے کہا ہے کہ "جو لوگ کہتے ہیں کچھ نہیں بدلا یا تو وہ دیکھ ہی نہیں سکتے یا دیکھنا نہیں چاہتے۔ 14 سال بعد میرا وطن واپس آ سکنا بذاتِ خود ایک انقلاب ہے"۔
انہوں نے انفراسٹرکچر اور خدمات میں قابلِ دید بہتری کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
عابدین نے کہا ہےکہ " سڑکیں بن رہی ہیں اور لوگ پیسے کے لیے نہیں اپنے ملک کو اوپر اٹھانے کے لیے کام کر رہے ہیں"۔
’’ملک واقعی بحال ہو رہا ہے‘‘
دمشق کی ایک اور رہائشی مریم الخالد نے کہا ہےکہ ماضی کے مقابلے میں سلامتی کا ماحول ناقابلِ موازنہ شکل میں بہتر ہو گیا ہے۔
سابقہ دور میں صحت کی سہولیات تک رسائی میں دشواریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الخالد نے کہا ہے کہ "کل ... ایک بچے کو انکیوبیٹر کی ضرورت تھی لہٰذا اسے فوراً داخل کر لیا گیا۔ پرانی حکومت کے دور میں یہ کام بغیر کسی رشتے یا سفارش کے ممکن نہیں تھا"۔
انہوں نے شہر کی صفائی، انفراسٹرکچر، قدرتی علاقوں اور تعلیم میں تیزی سے بہتری کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا ہے کہ "ملک واقعی بحال ہو رہا ہے۔ بہتری کے اقدامات شام کو معمول کی زندگی گزارنے والے دیگرملکوں کی مانند بنا رہے ہیں"۔
’’آج ہر جگہ تحفظ ہے‘‘
خالد الخطيب نے، جو 2012 کے بعد سے دمشق نہیں آئے تھے، اسد حکومت کے دوران سکیورٹی کے جبر و تشدّد کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہے کہ "وہاں رہنا قید خانے جیسا تھا۔ شہر کو ترک کرنا بھی ایک خواب تھا لیکن آج ہر جگہ اعتماد، عزت اور وقار ہے"۔
معاشی بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ "ڈالر 17,000 (شامی پاؤنڈ) سے گر کر 12,000 ہو گیا ہے۔ سب کچھ بہتر ہو رہا ہے۔ شام بہترین کا مستحق ہے"۔
غدیر مصفا نے اپنے ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو “خدائی معجزہ” قرار دیا ہے۔
مصفا نے کہا ہے کہ "میں جرابلس سے بغیر شناختی دستاویز اور بغیر ٹکٹ کے دمشق آیا ہوں اور کسی نے بھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ "کہاں جا رہے ہو؟" یہ آزادی ہے"۔
اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں امید ظاہر کرتے ہوئے غدیر مصفا نے کہا کہ"شام آگے بڑھ رہا ہے، اٹھ رہا ہے اور عوام اس تبدیلی کا انجن ہیں۔ میں ہر اس شخص کو مبارکباد دیتا ہوں جو اپنے ملک واپس آ رہا ہے۔ شام کو اُن کی ضرورت ہے"۔