پوتن کا دورہ بھارت: دفاع اور توانائی سمیت متعدد موضوعات مذاکراتی ایجنڈے پر

دونوں فریق دفاع، توانائی، جوہری تعاون، ادائیگی کے طریقہ کار، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم تک پھیلے ایک "جامع ایجنڈا" پر گفتگو کریں گے

By
نئی دہلی، بھارت میں، 4 دسمبر 2025 کو، ایک شخص روس کے ولادیمیر پوتن اور بھارت کے نریندر مودی کی تصاویر والے ایک ہورڈنگ کے سامنے سے سائیکل پر گزر رہا ہے۔ / Reuters

رواں ہفتے میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا دورہ  بھارت ،دفاع اور توانائی کے شعبوں میں روابط کو مضبوط کرنے میں مصروف، 'نئی دہلی ' کے لئےسفارت کاری  کے حوالے سے  ایک اہم موڑ کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے دور میں کہ جب عالمی توازن تبدیل ہو رہا ہے اور مغرب کی طرف سے دباو میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پوتن جمعرات کو 23ویں بھارت۔روس سالانہ سربراہی اجلاس کے لیے نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ یہ 2021 میں  یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے ان کا پہلا دورہ  بھارت ہے۔

مبصرین کے مطابق  یہ دو روزہ دورہ ،نئی دہلی کی ماسکو کے ساتھ دیرینہ شراکت داری اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبات  کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی  کوششوں کی آزمائش کرے گا۔

توقع ہے کہ دونوں فریق دفاع، توانائی، جوہری تعاون، ادائیگی کے طریقہ کار، برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم تک پھیلے ایک "جامع ایجنڈا" پر گفتگو کریں گے۔

دفاعی مبّصر  پراون سواہنی نے اناطولیہ خبر ایجنسی  کو بتایا ہے کہ "یہ دورہ 2025 میں بھارت کے لیے اہم ترین دورہ  ہے۔"

 پراون نے کہا ہے کہ "یہ ایک ایسے ملک کا جو روایتی طور پر بھارت کا دوست رہا ہے ایک متوازن دورہ ہے  اور ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے کہ جب عالمی توازن اہم تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔"

سیاسی تجزیہ کار پراوین ڈونتھی نے کہا  ہےکہ یہ دورہ،صدر ٹرمپ کی طرف سے بھارت پر عائد سخت محصولاتی دباؤ کے دوران، دونوں فریقین کو اپنے "خاص تعلقات کی تصدیق" کرنے کا موقع فراہم کررہا ہے۔

اسٹمسن سینٹر کے جنوبی ایشیا پروگرام کے تجزیہ کار 'واسو دیوا کلیانکر 'نے کہا ہے کہ یہ دورہ ماسکو کے بارے میں بھارت کی پالیسی میں زیادہ مستحکم مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اُنہوں نے اناطولیہ خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ "چار سال بعد پوتن کا پہلا دورہ بھارت اس بات کی علامت ہے کہ بھارتی خارجہ پالیسی میں روس کے بارے میں بحث بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ ماسکو ایک نیا اقتصادی شراکت دار بن کر ابھرا ہے اور ایک آسان دفاعی ساتھی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے "۔

دفاعی و اسٹریٹجک معاہدے

ایسے میں کہ جب  بھارت S-400 موبائل فضائی دفاعی  میزائل نظام جیسے عسکری  سامان کی خریداری  کا ارادہ رکھتا اور سوخوئی Su-57 لڑاکا طیاروں کے حصول میں پیش رفت کی خواہش رکھتا  ہے توقع ہے کہ دفاعی موضوعات سربراہی اجلاس پر حاوی رہیں گے۔

ساونِی نے کہا ہے کہ مئی میں پاکستان کے ساتھ قلیل مدّتی تصادم سے بھارت کو بہت سے سبق ملے ہیں اور اس وقت دفاع بھارت کے لیے انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔

اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ ماسکو نے پانچویں نسل کے طیارے، پیداوار لائنیں، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اضافی مشترکہ منصوبوں کی بھی  پیشکش کی ہے۔

سربراہی اجلاس سے قبل  ماسکو نے لاجسٹکس تبادلے کے دو طرفہ  معاہدے (RELOS) کی منظوری دی ہے۔اجلاس میں اس معاہدے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔  اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کو ایندھن  کی بھرائی، مرمت اور سپلائیز کے لیے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات تک رسائی کو بھی یقینی بنائیں گے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ   بحر ہند پر روس کی بڑھتی ہوئی توجہ کی عکاسی کرتا ہے اور نئی دہلی کو روس کے آرکٹک اور شمالی سمندری راستے کی کاروائیوں  میں سہارا  دے سکتا ہے۔

توانائی، جوہری تعاون اور تجارت

نئی دہلی پر ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل کی خریداری روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے  لہٰذا توانائی کے شعبے میں بھی بھارت۔روس تعلقات سربراہی اجلاس کے مرکز میں رہیں گے ۔

یہ دورہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے  کہ جب ٹرمپ نے اکتوبر میں دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں "یقین دلایا"ہے  کہ بھارت ایک مختصر مدت کے اندر روسی تیل کی خریداری روک دے گا۔ تاہم نئی دہلی نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی تھی۔

بعد ازاں بھارتی حکومت کے ایک ترجمان نے مذاکرات جاری ہونے کی اطلاع دی اور کہا ہے کہ توانائی کے غیر مستحکم ماحول میں بھارتی صارف کے مفادات کے تحفظ  کی ضرورت  درآمدات کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اگرچہ امریکی پابندیوں کے بعد مقدار میں کمی آئی ہے لیکن روس اس وقت بھی  بھارت کا سب سے بڑا تیل سپلائر ہے ۔

انٹرنیشنل کرائسِس گروپ کے اولیگ اگناتوف نے کہا ہے کہ بھارت آسانی سے روسی خام تیل کا متبادل تلاش نہیں کر سکتا۔

اُنہوں نے اناطولیہ خبر ایجنسی  کو بتایا ہے کہ "بھارت ، اندرونی استعمال کے لئے بھی اور برآمدات کے لئے بھی، رعایتی داموں پر  دستیاب روسی تیل پر انحصار کرتا ہے"۔

مذاکرات میں جوہری تعاون بھی اہم موضوع ہوگا۔ روس جنوبی صوبے  تامل ناڑو میں کوڈانکلم جوہری بجلی گھر کے متعدد یونٹ تعمیر کر رہا ہے۔

ساونِی نے کہا ہے کہ "روس بھارت میں بہت سا شہری جوہری کام کر رہا ہے اوراب ہم  چھوٹے ماڈیولر جوہری ری ایکٹروں  کے اگلے مرحلے کی طرف بڑھ  رہے ہیں۔"

تجارت بھی مذاکرات کا  کلیدی موضوع رہے گی، دونوں ممالک 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 100 بلین ڈالر تک پہنچانے کے ہدف پر کام کر رہے ہیں۔

دو طرفہ تجارت مالی سال 2024-25 میں ریکارڈ 68.7 بلین ڈالر تک پہنچ گئی  جو کووِڈ  وبا سے پہلے کی سطح سے تقریباً چھ گنا زیادہ ہے۔

ساونِی نے کہا  ہےکہ روس کی قیادت میں یوریشیئن اکنامک یونین کے ساتھ ممکنہ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی بات چیت متوقع ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں تعاون بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔

مغرب کی طرف اشارہ

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ دورہ ،بھارت کی خارجہ پالیسی کی خودمختاری کے بارے میں بھی، ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔

اگناتوف نے کہا ہے کہ "بھارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اسٹریٹجک خودمختاری دکھائے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ ماسکو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو برابری کے  رشتے کے طور پر دیکھتا ہے، اور یہ دورہ یورپ اور امریکہ کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ ، دباؤ کے باوجود ، نئی دہلی اور ماسکو سیکورٹی، توانائی اور کثیر الجہتی فورموں میں تعاون جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ "پوتن یہ بھی دکھانا چاہتے ہیں کہ پابندیوں کے دباؤ کے باوجود روس بھارت کے ساتھ توانائی سمیت تمام شعبوں میں اقتصادی تعلقات جاری رکھ رہا ہے۔"

ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ  نہ تو بھارت اور نہ ہی روس اس دورے کو مغرب کے خلاف چیلنج کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اگناتوف نے کہا ہے کہ "وہ دکھانا چاہیں گے کہ ان کا تعاون اور ان کے تعلقات مغرب یا امریکہ کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ باہمی مفاد اور اقتصادی مفاد پر مبنی ہیں اور  کسی طاقت کے خلاف نہیں ہیں۔"

ساونِی نے  کہا ہے کہ بھارت نے حال ہی میں امریکہ کے ساتھ ایک دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس نے اسے طویل مدتی حکمت عملی کے معاملے میں واشنگٹن کے ساتھ زیادہ قریب کر  دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ "جہاں تک خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک کردار کا تعلق ہے، بھارت اب یقینی طور پر امریکہ کے ساتھ وابستہ ہے نہ کہ روس کے ساتھ۔"

تاہم، چونکہ بھارت 2026 میں برکس کی صدارت سنبھالنے والا ہے لہٰذا اسے روس اور چین دونوں کے ساتھ تعمیری تعلقات کی ضرورت ہوگی۔

ساونِی نے کہا ہے کہ "روس ایک قابل اعتماد شراکت دار کی حیثیت پر برقرار  ہے۔2026 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات ٹھنڈے رہ سکتے ہیں، لیکن بھارت کی امریکہ کے ساتھ وابستگی کمزور نہیں پڑے گی۔ اسی دوران روسی بھی چاہتے ہیں کہ یہ تعلقات پھلے پھولیں۔"

یوکرین امن منصوبے پر امریکہ۔روس مذاکرات میں تیزی کے حوالے سے بھی دورے کا وقت معنی دار ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ  ایک ایسا پس منظر جو مودی اور پوتن دونوں نظر انداز نہیں کر سکتے۔

کلیانکر نے کہا ہے کہ "یہ ڈائنامکس پوتن۔مودی بات چیت کو رنگ دے سکتی ہیں اور دونوں فریق  ممکنہ طور پر ان اہم پیش رفتوں پر خیالات کا تبادلہ کریں گے۔"

اگناتوف نے کہا ہے کہ بھارت واشنگٹن کے تجویز کردہ اقدامات کو مثبت طور پر دیکھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اس جنگ کو روکنا چاہتا ہے، کیونکہ وہ روس کے ساتھ تجارت میں بھی اور ثانوی پابندیوں سے بچنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔"