فلسطین تحریکِ مزاحمت 'حماس' معاہدے پر کاربند ہے: کشنر
فلسطینی گروپ 'حماس' جنگ بندی معاہدے کے تحت "نیک نیتی" سے کام کر رہا ہے: جیرڈ کشنر
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور غزہ جنگ بندی معاہدے کے اہم مذاکرہ کار 'جیرڈ کشنر' نے کہا ہے کہ فلسطینی گروپ 'حماس' جنگ بندی معاہدے کے تحت "نیک نیتی" سے کام کر رہا ہے۔
اتوار کو سی بی ایس پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کشنر نے کہا ہےکہ امریکہ، اسرائیل اور ثالث ممالک مل کر معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ غزہ میں حماس کی تحویل میں موجود زندہ اور مردہ اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا حماس معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے؟ کشنر نے کہا ہے کہ "ثالثوں سے موصول معلومات کے مطابق وہ اب تک معاہدے کی پابندی کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ، کسی بھی وقت ناکام ہو سکتے ہیں لیکن اس وقت تک ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے معاہدے کی پاسداری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔
اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے غیر رسمی مشیر 'کشنر' نے کہا ہےکہ واشنگٹن دونوں فریقوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے مسائل کے حل کے لیے فعال طور پر کام کریں ۔ انہوں نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران استحکام برقرار رکھنے کے مقصد پر زور دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ قیدیوں کی باقیات کی بازیابی میں پیش رفت ، اسرائیلی حکام اور قطر، مصر اور ترکیہ کے ثالثوں کے غزہ میں حماس کے عہدیداروں کو معلومات فراہم کرنے سے ممکن ہو سکے گی۔
دوسری جانب، باوجودیکہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں ،ٹرمپ نے کہا ہےکہ غزہ میں جنگ بندی اب بھی نافذ العمل ہے ۔ انہوں نے اس بات پربھی زور دیا ہے کہ واشنگٹن ،اسرائیل اور حماس کے درمیان مسلسل سکون کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی' اسٹیو وٹکوف' نے کہا ہےکہ جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک "ماسٹر پلان" پہلے ہی تیار ہے۔ تعمیر نو کی کوششیں ایک شفاف اور علاقائی حمایت یافتہ عمل کے ذریعے کی جائیں گی۔ تعمیرِ نو کے عمل میں عرب اور بین الاقوامی شراکت دار شامل ہوں گے۔
سی بی ایس پر ایک انٹرویو میں وٹکوف نے کہا ہے کہ اس منصوبے کی لاگت تقریباً 50 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اس کا مقصد جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بحال کرنا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "میرے خیال میں اس پر کافی رقم خرچ ہوگی۔ مصارف کا تخمینہ 50 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن اس خطے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے۔ ایسی حکومتیں موجود ہیں جو تعمیرِ نو کے عمل میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں"۔