امریکہ نے نسل کشی سے متاثرہ غزہ میں امن فورس کے لیے ایک مسودہ قرار داد پیش کر دی

یہ مسودہ آئندہ دنوں میں کونسل کے اراکین کے درمیان مذاکرات کی بنیاد بنے گا، جس کا مقصد آئندہ ہفتوں میں اس پر  رائے دہی کراتے ہوئے اسے منظور کرنا اور جنوری تک غزہ میں پہلی فوجی تعیناتی کرنا ہے۔

Destruction in Gaza's Tel al-Hawa neighborhood after Israel suspended genocide in the Palestinian territory.

Axios نیوز سائٹ  کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کو ایک مسودہ قرارداد پیش کی ہے جس میں اسرائیل کے زیرِ محاصرہ غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکورٹی فورس کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا مینڈیٹ کم از کم دو سال تک جاری رہے گا ۔

اس مسودے کے مطابق ،جس کی  "حساس لیکن غیر درجہ بند" کے طور پر  تشریح کی گئی ہے ، یہ قرارداد امریکہ اور دیگر شریک ممالک کو غزہ پر وسیع اختیار فراہم کرے گی۔

ایک امریکی عہدیدار نے ایکسیوس کو بتایا کہ یہ مسودہ آئندہ دنوں میں کونسل کے اراکین کے درمیان مذاکرات کی بنیاد بنے گا، جس کا مقصد آئندہ ہفتوں میں اس پر  رائے دہی کراتے ہوئے اسے منظور کرنا اور جنوری تک غزہ میں پہلی فوجی تعیناتی کرنا ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سیکورٹی فورس (آئی ایس ایف) ایک "نفاذی فورس ہوگی، نہ کہ امن قائم رکھنے والی فورس"، جس میں کئی شریک ممالک کے فوجی شامل ہوں گے اور اسے غزہ کے "بورڈ آف پیس" کے مشورے سے قائم کیا جائے گا۔

مسودہ قرارداد کے مطابق، آئی ایس ایف کو غزہ کی اسرائیل اور مصر کے ساتھ سرحدوں کو محفوظ بنانے، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کرنے اور ایک نئے فلسطینی پولیس فورس کی تربیت کرنے کا کام سونپا جائے گا ۔

مسودہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بورڈ آف پیس کم از کم 2027 کے آخر تک قائم رہے گا۔

آئی ایس ایف غزہ میں سیکورٹی ماحول کو مستحکم کرنے کے لیے غزہ  کی پٹی کو غیر مسلح کرنے کے عمل کو یقینی بنائے گی، جس میں عسکری، دہشت گرد اور جارحانہ ڈھانچے کی مسماری اور تعمیرنو  شامل ہے، نیز غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیاروں کو مستقل طور پر ختم کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہو گا۔

مسودہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئی ایس ایف غزہ معاہدے کی حمایت میں "ضرورت کے مطابق اضافی کام" بھی انجام دے گی۔

ترکیہ  کا انتباہ: کوئی نیا سرپرستی نظام نہیں

پیر کے روز، ترک وزیر خارجہ حاکان فیدان نے کہا کہ ممالک فوجی تعیناتی کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متوقع قرارداد کے متن پر منحصر کر کے کریں گے۔

انہوں نے استنبول میں غزہ پر ایک اجلاس  کہ جس میں انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، اردن کے وزرائے خارجہ اور متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندوں نے  شرکت کی، کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا، "جن جن ممالک سے ہم نے بات کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے متن کی  تشریح کی بنیاد پر اپنے فوجی بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ کریں گے۔"

فیدان نے کہا کہ مذاکرات اور مختلف کوششیں جاری ہیں، اور ممالک کی جانب سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسی فورس کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا مینڈیٹ اور قانونی حیثیت کونسل کی قرارداد کے دائرہ کار میں واضح ہو۔

انہوں نے زور دیا کہ فورس کے مینڈیٹ کی تعریف کے عمل میں پہلے ایک عمومی اتفاق رائے ہونا چاہیے، اور پھر اسے کونسل کے مستقل اراکین کی جانب سے ویٹو کیے بغیر یو این ایس سی سے منظور کرانا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترکیہ اور شراکت دار ممالک اس عمل کے ہر مرحلے پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ترکیہ اور استنبول میں اجلاس میں شریک چھ مسلم ممالک نے پیر کو کہا  کہ غزہ کا مستقبل فلسطینی قیادت میں ہونا چاہیے اور کسی نئے سرپرستی نظام سے گریز کرنا چاہیے ۔

ترکیہ — جس نے تین ہفتے  قبل جنگ بندی کے معاہدے کو تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کیا، لیکن جسے امریکہ کے اتحادی اسرائیل نے بار بار توڑا — مسلم ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ نسل کشی سے متاثرہ فلسطینی علاقے کی تعمیر نو میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

فیدان نے مذاکرات کے بعد کہا، "ہمارا اصول یہ ہے کہ فلسطینیوں پر فلسطینی حکومت کریں اوریہ  اپنی سلامتی کو یقینی بنائیں، بین الاقوامی برادری کو اسے بہترین ممکنہ طریقے سے سفارتی، ادارہ جاتی اور اقتصادی طور پر حمایت فراہم کرنی چاہیے۔"

انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، "کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایک نیا سرپرستی نظام ابھرے۔"