چین: ہم 50 فیصد اضافی محصولات کے خلاف آخر تک لڑیں گے

ٹرمپ کی طرف سے 50 فیصد اضافی محصولات کی دھمکی پر بیجنگ کا سخت ردعمل: "اگر امرکہ اپنی بات پر اصرار کرتا رہا تو چین اس کے خلاف آخر تک لڑے گا"

Trump upended the world economy last week with sweeping tariffs that have raised the spectre of an international recession. / AP

چین نے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد نئے محصولات کی دھمکی کے خلاف "آخر تک لڑنے" کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے،  چینی مصنوعات پر 50 فیصد محصولات لگانے کی، دھمکی نے  عالمی منڈیوں کو تہہ و بالار کر دیا ہے۔ بیجنگ انتظامیہ نے بھی اس کا فوری جواب دیا اور کہا ہے کہ ہم، ان اقدامات  کا جواب دیں گے اور یہ جواب آخر تک جدوجہد کی شکل میں ہو گا۔

بیجنگ وزارت تجارت کے ترجمان نے آج بروز منگل جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "اگر امریکہ اپنی ضد پر اڑا رہا تو چین آخر تک لڑے گا۔ ٹرمپ کی دھمکی نےایک بار پھر امریکہ کی داداگیر فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے"۔

وزارت تجارت نے کہا ہے کہ "اگر امریکہ نے محصولاتی کاروائیوں میں اضافہ کیا تو چین اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیےمصّمم شکل میں جوابی حفاظتی  اقدامات کرے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود چین امریکہ کے ساتھ "مذاکرات" کا خواہش مند ہے  کیونکہ تجارتی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوگا"۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ٹرمپ کے اعلان کردہ وسیع پیمانے کے محصولات نے عالمی معیشت میں بھونچال پیدا کر  دیا  تھا۔ نتیجتاً بین الاقوامی کساد بازاری کے خدشے میں اضافہ ہو گیا تھا۔اس کے جواب میں بیجنگ نے بھی جمعرات سے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد اضافی محصولات کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

چین کی فوری جوابی کارروائی پر ٹرمپ نے ایک نئی وارننگ دی کہ اگر بیجنگ ان کے محصولاتی حملے کے خلاف مزاحمت بند نہیں کرتا تو وہ اضافی محصولات عائد کریں گے  جس سے چینی مصنوعات پر مجموعی محصولات 104 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ "میں چین کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن وہ یہ نہیں کر سکتے۔ اس معاملے میں ہمیں ایک موقع حاصل ہے۔۔۔اور یہ کام کرنا میرے لئے   ایک اعزاز ہے"۔

منڈیوں  میں ہلچل

ٹرمپ کے محصولات نے گزشتہ دنوں میں مالیاتی منڈی  پر ڈرامائی اثر ڈالا ہے۔پیر کو ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس 13.2 فیصد گر گیا، جو ایشیائی مالیاتی بحران کے بعد سے اب تک کا بدترین دن تھا ، لیکن منگل کو انڈیکس کے نقصان میں کچھ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

وال اسٹریٹ کی اسٹاک منڈیوں میں بھی اتار چڑھاو دیکھا گیااور ' ڈاؤ' اور' ایس اینڈ پی 500'دونوں منڈیوں نے دن کو  گھٹوتی پر بند کیا۔

حالیہ سیشنوں میں مشترکہ اسٹاک مارکیٹ کی گرتی ہوئی قدر سے کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔

ٹرمپ نے پیر کو جاری کردہ بیان میں دوبارہ کہا تھا کہ وہ محصولات کے نفاذ میں کسی وقفے پر غور نہیں کر رہے۔

انہوں نے چین کے ساتھ محصولات پر کسی بھی ملاقات کو منسوخ کر دیا  اور کہا ہے کہ  امریکہ کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے جو مذاکرات کرنا چاہتا ہو۔

سوموار کی بھاری مندی کے بعد چین کے مرکزی بینک نے منگل کو تجارت کے دوبارہ آغاز سے پہلے جاری کردہ بیان میں کہا ہے  کہ، منڈی کے استحکام کی خاطر،سرکاری فنڈ 'ایکسچینج سرمایہ کاری  فنڈ' خریدنا جاری رکھے گا ۔

سرمایہ کاروں کو تباہ کن تجارتی جنگ سے کسی بھی ریلیف کی تلاش ہے اور ایسے وقت میں امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا Fox News کے لئے انٹرویو  منڈیوں میں کچھ سکون کا باعث بنا ہے۔بیسنیٹ نے کہا  ہے کہ امریکی محصولات پر مذاکرات میں جاپان کو "ترجیح" ملے گی "اور اس کی وجہ یہ ہے کہ  انہوں نے بہت جلدی آگے بڑھ کر بات کی ہے"۔

ہفتے کے روز دنیا بھر سے امریکی درآمدات پر 10 فیصد "بنیادی" محصول نافذ ہوا، اور بدھ سے کئی چینی مصنوعات پر 34 فیصد اور یورپی یونین  مصنوعات پر 20 فیصد محصولات نافذ ہوں گے۔

بیسنٹ نے بیسیوں ممالک کی طرف سے مذاکرات کی طلب کا ذکر کرتے ہوئے  Fox News کو بتایا کہ "ہم، اچھے مذاکرات کے ذریعے، محصولات میں کمی کو یقینی بنائیں گے"۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات میں  امریکی صدر نے کہا ہے کہ" محصولات مستقل بھی ہو سکتے ہیں، اور مذاکرات بھی ممکن ہیں، کیونکہ محصولات سے بڑھ کر بھی کچھ چیزیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے"۔

دوسری طرف یورپی یونین وزرائے تجارت نے، محصولات کے جوابی منصوبوں پر بات چیت کے لئے، سوموار کے دن لکسمبرگ میں اجلاس کیا۔ اجلاس میں  جرمنی اور فرانس  نے کہا کہ  امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر محصولات عائد کرنے  کے موضوع پر   کاروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

فرانس کی وزیر تجارت لورینٹ سینٹ مارٹن نے کہا ہے کہ  "ہمیں اشیاء اور خدمات پر کسی بھی موقعے  کو مسترد نہیں کرنا چاہیے۔ یورپ کے پاس ایک  جامع اور کافی حد تک جارحانہ ٹول باکس  موجود ہے اور ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہیے"۔