ترکیہ: غزہ کی بحالی اور حکومت کا نظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے

غزہ کی تعمیر نو اور حکومت کا انتظام فلسطینیوں کے  ہاتھ میں ہونا چاہیے: وزیرِ خارجہ خاقان فیدان

Referring to the agreement on the Gaza ceasefire, Fidan noted that it has created a tremendous amount of hope. / Reuters Archive

ترکیہ کے  وزیر خارجہ خاقان فیدان نے کہا ہے کہ "غزہ کی تعمیر نو اور حکومت کا انتظام فلسطینیوں کے  ہاتھ میں ہونا چاہیے"۔

وزیرِ خارجہ فیدان نے غزّہ کے عبوری دور پر بات چیت کے لئےپیرس میں اور  یورپ، عرب دنیا اور دیگر ممالک کے اعلیٰ سطحی سفارتکاروں کی شرکت سے منعقدہ اجلاس کے بعد بروز جمعرات پریس کانفرنس کی ہے۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے  کہا ہے کہ غزّہ کی تعمیرِ نو ، حکومت اور دفاعی فورسز   کا انتظام فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور یہ کہ بین الاقوامی برادری کو  ، اسرائیلی نسل کُش  بنیامین نیتن یاہو کے غزّہ پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کے امکان کے مقابل ،چوکس ہے۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ "کل کا دن بہت اہم تھا۔ غزہ میں  دو سال سے جاری نسل کشی کو روکنے کی امید پیدا ہوئی ہے ۔ ترکیہ نے  ابتدا سے ہی صدر رجب طیب اردوان کی  زیرِقیادت زبردست بین الاقوامی کوششیں کی ہیں۔ اس عمل کے دوران، ہم نے، اسلامی دنیا اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ اپنے مشترکہ کوششوں کو تیز اور مربوط کرنے کے نظام اور ثقافت کو مزید فروغ دیا ہے۔"

فدان نے کہا ہے کہ ہم نے بین الاقوامی برادری کو بھی  اس کوشش میں شامل کرنے کے لیے  کام کیا ہے۔سول سوسائٹی  تنظیموں، حکومتی اداروں غرض ہم سب نے اپنی پوری کوشش کی، اور ہم واقعی خوش ہیں کہ آج ہم  اس کے نتیجے تک پہنچ گئے ہیں۔ اب خونریزی کو روکنے اور ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی تکالیف کو ختم کرنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔"

انہوں نے کہا  ہےکہ اس مرحلے سے آگے کئی اہم مسائل ہیں۔ جو کچھ اب طے پایا ہے وہ پہلے مرحلے کے نفاذ کا منصوبہ ہے جس کے چار مقاصد ہیں۔یہ مقاصد جنگ بندی کے حصول، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جلد از جلد بلا تعطل انسانی امداد کے آغاز اور اسرائیلی افواج کے مخصوص لائنوں تک انخلا پر مبنی  ہیں"۔

انہوں نے کہا ہے کہ " یہ پہلے مرحلے کے منصوبے کے اجزاء ہیں، اور ان پر بڑی احتیاط کے ساتھ عمل ہونا چاہیے۔ معاہدے کے متن کے متعلقہ آرٹیکل کے مطابق ترکیہ بھی اس نفاذ میں حصہ لے گا۔"

فدان نے آج کے اجلاس کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکیہ سمیت اسلامی تعاون تنظیم 'او آئی سی' کے سات ممالک کے وزرائے خارجہ  اور عرب لیگ کے نمائندے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ساتھ موجود تھے۔

انہوں نے کہا ہے کہ "ہم نے کل کے معاہدے کے نتائج اور اس کے نفاذ کے طریقے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ خاص طور پر اس پہلو کا  کہ یورپی اور باقی بین الاقوامی برادری غزہ کی اقتصادی، تعمیراتی اور انتظامی بحالی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔ آج کے اجلاس میں اہم نتائج حاصل کیے گئے ہیں جو اہم فیصلوں کی بنیاد بنیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یورپی وزراء ان مشاہدات کو اپنے دارالحکومتوں اور سیاسی رہنماؤں تک پہنچائیں گے اور اہم نتائج کا سبب بنیں  گے۔"

فیدان نے مسئلے کے دو ریاستی حل کی اہمیت پر زور دیا اور کہا ہے کہ یہ خوش آئند ہے کہ سب نے اسے مسئلے کے حل میں مرکزی کردار قبول کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ "بحیثیت ترکیہ ہم نے کہا ہے کہ  اگر غزہ کی تعمیر نو اور منصوبوں کا نفاذ غزہ کو 7 اکتوبر 2023 سے پہلے کی حالت میں واپس لے جائے گا، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں مستقبل میں ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، 7 اکتوبر سے پہلے، غزہ ایک کھلی جیل کی طرح تھا۔"

انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں آزاد تجارت یا معیشت نہیں تھی، اور ہر چیز اسرائیلی کنٹرول اور پابندیوں کے تابع تھی۔

فیدان نے کہا کہ اسلامی دنیا کے اداکاروں کے لیے کچھ مسائل اب واضح ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ “ہم اکٹھے ہو جائیں تو سب کچھ ممکن بنا سکتے ہیں۔ درحقیقت، کچھ چیزیں ہماری تقدیر نہیں ہیں۔ انہیں صرف زیادہ قوت ارادی، زیادہ محنت، زیادہ پیشہ ورانہ مہارت، اور زیادہ آزادانہ سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم یہ دیکھ کر خوش ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ترکی کی طرف سے پیش کی گئی یہ نئی روح نہ صرف فلسطینی مسئلے کو حل کرنے میں بلکہ دیگر علاقائی مسائل کو حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔"

غزہ کی جنگ بندی کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے، فدان نے کہا کہ اس نے زبردست امید پیدا کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ "تاہم، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیشہ ایک مسئلہ کا علاقہ ہو سکتا ہے۔ اب تک، نیتن یاہو کا ایک ریکارڈ ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ وہ خاص طور پر امن کے معاملے میں کتنا غیر قابل اعتماد ہے۔ اسرائیل دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری اس وقت چوکس ہے۔ یرغمالیوں کے مسئلے کے حل کے بعد، اسرائیل کے پاس اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے کے لیے کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی۔"

انہوں نے کہا ہے کہ نفاذ کے مرحلے میں کچھ مسائل کی توقع کی جانی چاہیے، اور یہ صورتحال کی نوعیت کا حصہ ہے، اس لیے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترکی ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ اور مربوط انداز میں کام جاری رکھے گا۔