علی بابا نے امریکہ کے خلاف چینی فوج کی مدد کرنے کی رپورٹ کو مسترد کر دیا

علی بابا نے فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ کو "بالکل غلط" قرار دیا اور اس پر مبنی وائٹ ہاؤس سے جڑے میمو کو "غلط پی آر آپریشن" قرار دیا۔

By
فائل فوٹو: ایک شخص بیجنگ، چین میں 16 جولائی 2025 کو چائنا انٹرنیشنل سپلائی چین ایکسپو کے دوران علی بابا کے بوتھ پر آویزاں اس کے لوگو کے پاس سے گزر رہا ہے۔ / Reuters

چینی   مایہ ناز ٹیکنالوجی فرم  علی بابا نے بیجنگ کی جانب سے امریکہ کو نشانہ بنانے میں مدد دینے کی تردید کی اور ہفتے کو اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ میڈیا رپورٹ "بالکل غلط" ہے۔

فنانشل ٹائمز نے ہفتے کی صبح رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس کے ایک میمو کے مطابق علی بابا "چینی فوجی 'آپریشنز' کے لیے (امریکہ) اہداف کے خلاف تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔"

میمو میں دعویٰ کیا گیا کہ علی بابا صارفین کے ڈیٹا جیسے "آئی پی ایڈریس، وائی فائی معلومات اور ادائیگی کے ریکارڈ" چینی حکام اور پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو فراہم کرتا ہے۔

فنانشل ٹائمز نے کہا کہ وہ خود سے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا، اور نوٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس کا خیال ہے کہ یہ اقدامات امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

علی بابا گروپ کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ " کالم  میں کیے گئے  دعوے اور اشارے بالکل غلط ہیں"۔ ہانگژو میں واقع اس کمپنی نے اس میمو کو "خطرناک پی آر آپریشن" قرار دیا اور کہا کہ یہ واضح طور پر  بد نیتی کا مظہر ہےجو صدر ٹرمپ کے چین کے ساتھ حالیہ تجارتی معاہدے کو نقصان پہنچانا چاہتی تھی۔

یہ تنازعہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان پائے جانے والے شکوک و شبہات کو اجاگر کرتا ہے، جو ٹیکنالوجیکل برتری کے حصول کی دوڑ میں بندھے ہوئے ہیں۔

جنوری میں دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت تجارتی جنگ کو دوبارہ بھڑکا دیا ہے۔

کئی ماہ پر محیط ایک دوسرے پر محصولات  لاگو کرنے  کے بعد ،  ان کے ہم منصب شی جن پنگ نے گزشتہ  ماہ کے آخر میں ایک سالہ رسہ کشی  کے خاتمے  پر اتفاق کیا۔

چین کے سفارت خانے کے ایک ترجمان نے بھی امریکہ میں شائع شدہ میمو کے دعووں کی تردید کی۔

," لیو پینگ یو نے ایک بیان میں ایکس پر کہا کہ "چینی حکومت، کبھی بھی کمپنیوں یا افراد سے مقامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی ممالک میں موجود ڈیٹا اکٹھا کرنے یا فراہم کرنے کا تقاضا نہیں کرے گی ۔

رپورٹ واشنگٹن میں اس خدشے میں اضافہ کرتی ہے کہ چین جدید ٹیکنالوجی کو جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

جمعرات کو کیلیفورنیا میں قائم مصنوعی ذہانت کمپنی انتھروپک نے کہا کہ اس نے ایک ایسی سائبر جاسوسی مہم کا پتہ لگایا اور اسے ناکارہ بنایا ہے جسے اس نے پہلی دستاویزی مثال قرار دیا اور جسے زیادہ تر خودمختار طور پر اے آئی نے چلایا۔

انتھروپک نے کہا کہ ان سرگرمیوں کا تعلق ایک "چینی ریاستی معاونت یافتہ گروپ" سے جوڑا گیا۔

جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس میں رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ وہ "تفصیلات سے واقف نہیں"، اور مزید کہا کہ بیجنگ نے ہیکنگ سرگرمیوں کے خلاف مسلسل جدوجہد  کی ہے۔