شام پر پابندیوں کا خاتمہ انسانیت کے لئے نہایت مفید فیصلہ ہے: شیمشک
شام سے پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ انسانیت کے لیے نہایت مفید فیصلہ اور جنگ زدہ ملک میں امن اور خوشحالی کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے: مہمت شیمشک
ترکیہ کے وزیر خزانہ مہمت شیمشک نے کہا ہے کہ امریکہ کا شام سے پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ انسانیت کے لیے نہایت مفید فیصلہ اور جنگ زدہ ملک میں امن اور خوشحالی کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
دوحہ میں قطر اکنامک فورم 2025 کے موقع پر ٹی آر ٹی ورلڈ سے گفتگو میں شیمشک نے ایک مستحکم اور متحد شام کی علاقائی و عالمی اہمیت پر زور دیا اور کہا ہے کہ ترکیہ، شام کی بحالی اور بین الاقوامی اقتصادی نظام میں اس کی دوبارہ شمولیت کے لیے، مدد فراہم کرنے پر تیار ہے۔
شیمشک نے کہا ہے کہ " انقرہ، علاقائی سالمیت اور سیاسی ہم آہنگی کی خاطر شام کی طویل المدتی حمایت کرتا ہے۔شام میں سیاسی اتحاد، استحکام ، امن اور نتیجتاً ملکی خوشحالی خطے کے بھی مفاد میں ہے اور ترکیہ کے بھی اور اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک عالمی عوامی فائدہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"جب تنازعات اور بدامنی ہوتی ہے تو یہ سب کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور خاص طور پر پڑوسیوں کے لیے۔ شام میں جغرافیائی سیاسی عدم استحکام نے برسوں تک ترکی پر بھاری بوجھ ڈالے رکھا ہے"۔
اس تناظر میں، شیمشک نے واشنگٹن کے حالیہ اقدام کا خیرمقدم کیا اور کہا ہے کہ "امریکہ نے درست فیصلہ کیا، کیونکہ ہمیں شام کے استحکام کی حمایت کرنی چاہیے۔ ہمیں شام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اور سیاسی اتحاد و علاقائی سالمیت کے حصول میں بھی مدد فراہم کرنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں جو خوشحالی ہو گی وہ سب کے مفاد میں ہوگی۔"
انہوں نے مزید کہا ہے کہ"ترکیہ ہر ممکن طریقے سے مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم بہت معاون رہے ہیں اور ہم شام کی علاقائی سالمیت، رواداری اور تنوع کے احترام کی اور یقیناً ایسا ماحول پیدا کرنے کا دفاع جاری رکھیں گے جو شام کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔"
ایسے میں کہ جب شام کا مستقبل غیر یقینی ہے، شمشیک کا ترکیہ کو بطور ایک علاقائی استحکام کار کے پیش کرنا اس کے وسیع تر اسٹریٹجک عزائم کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسے وژن کی نشاندہی کرتا ہے جو خطے میں قیامِ امن اور اقتصادی ترقی کے امتزاج کا حامل ہے۔
شمشیک نے کہا ہے کہ "اپنے اندر ایک مستحکم اور خوشحال شام انسانیت کے لیے ایک بڑا فائدہ ثابت ہوگا۔"
قطر اکنامک فورم 2025 کی تعریف
شمشیک نے "2030 تک کا راستہ: عالمی معیشت کی تبدیلی" کے زیرِ عنوان منعقد قطر اکنامک فورم کی تعریف کی اور کہا ہے کہ یہ فورم غیر یقینی حالات میں مکالمے کے لیے ایک ضروری جگہ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، "عالمی معیشت کو بڑے غیر یقینی حالات کا سامنا ہے، جس میں تجارتی تقسیم سے شروع ہو کر عالمی اقتصادی پالیسی کی غیر یقینی صورتحال تک سب شامل ہے۔ اس حوالے سے یہ فورم مختصر المدتی اور طویل المدتی ساختی چیلنجوں اور مواقع پر بات کرنے کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے"۔
ترکیہ کے وزیر خزانہ نے تسلیم کیا ہے کہ فورم نے نہ صرف موجودہ چیلنجوں کو اجاگر کیا بلکہ مشترکہ حل کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے ۔یہاں ہم نے مواقع پر بھی اوردرپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے پر کافی بات چیت کی ہے"۔
شیمشک نے قطر کی "نہایت مضبوط سافٹ پاور بیس" اور علاقائی تنازعات کو حل کرنے میں "تعمیری کردار" کو بھی اجاگر کیا اور کہا ہے کہ "فورم اس لحاظ سے بہت نتیجہ خیز رہا ہے" انہوں نے سیاسی رہنماؤں اور کاروباری شخصیات کے ساتھ وسیع دو طرفہ ملاقاتوں کے مواقع کی بھی تعریف کی اور کہا ہے کہ "عام طور پر، آپ کو اتنے زیادہ لوگوں سے ملنے کے لیے بہت سفر کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دو یا تین دنوں میں، آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں اور بہت کچھ حاصل کرتے ہیں۔"
ترکی-قطر تعلقات: غیر استعمال شدہ بھرپور صلاحیت والےمواقع
شمشیک نے زور دیا ہے کہ ترکیہ اور قطر کے درمیان بہت سے غیر استعمال شدہ مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ"ہمارے سیاسی تعلقات بہترین ہیں، لیکن ہم نے ابھی تک اقتصادی و تجارتی تعلقات کو اس سطح تک وسیع اور گہرا نہیں کیا ۔ لہٰذا، میرے خیال میں یہاں بہت سے غیر استعمال شدہ مواقع موجود ہے۔"
انہوں نے تیسرے ممالک میں ترقیاتی منصوبوں میں تعاون کے لیے مشترکہ عزائم کو بھی اجاگر کیا اور کہا ہے کہ "میں قطر اور ترکیہ دونوں میں نمایاں مواقع دیکھتا ہوں، لیکن ساتھ ہی تیسرے ممالک میں مل کر کام کرنے میں بھی فائدہ ہے۔"
شیمشک نے کہا ہے کہ یہ وژن ترک صدر رجب طیب اردوعان کے وسیع تر رابطے کے ایجنڈے کے مطابق ہے: "صدر اردوعان کی قیادت میں، یہ نیا ترقیاتی منصوبہ جو خلیج فارس کو ترکیہ سے جوڑے گا اور اس کے ذریعے، مڈل کوریڈور، چین اور برطانیہ تک رسائی ہو گی ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔"
ترکیہ کا سرمایہ کاری ماحول
شیمشک نے ملیکی امکانات کے بارے میں پُر امید ہونے کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ عالمی چیلنجوں کے باوجود، ترکیہ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) کو اپنی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ "گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، میکرو اکنامک استحکام اور مضبوط اقتصادی کارکردگی کی بدولت، ترکیہ نے تقریباً 280 بلین ڈالر کی ایف ڈی آئی کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں صرف 15 بلین ڈالر سے بڑھ کر ہے۔"
انہوں نے دلیل دی ہےکہ ترکیہ کی بنیادی خصوصیات سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہیں: "90 ملین کے قریب گھریلو مارکیٹ، فی کس جی ڈی پی 15,000 ڈالر سے زیادہ، بہترین انفراسٹرکچر، اور اعلیٰ معیار کی صلاحیت — یہ سب ترکیہ کو سرمایہ کاری کی ایک پرکشش منزل بناتے ہیں۔"
شمشیک نے حالیہ برسوں میں مہنگائی کے ایف ڈی آئی کے بہاؤ پر منفی اثرات کو تسلیم کیا لیکن موجودہ اقتصادی اصلاحاتی پروگرام پر اعتماد کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ "ہم اس کا حل نکال رہے ہیں۔ میکرو اکنامک استحکام اور اصلاحات کے ساتھ، ایف ڈی آئی کے بہاؤ میں اضافے کے لیے ضروری ماحول تشکیل پائے گا لیکن یقیناً، ہمیں بہتری جاری رکھنی ہوگی اور اپنے معاملات کو درست کرنا ہوگا۔"