امریکی غزہ منصوبے کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظوری کے بعد عالمی رد عمل

عالمی رہنماؤں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے کہ یہ "امن کی راہ" ہے، جبکہ بعض ممالک استدلال کر رہے ہیں کہ قرارداد میں وضاحت کا فقدان ہے۔

By
قرارداد کے حق میں 13 ووٹ ڈالے گئے، جبکہ چین اور روس نے امتناع کیا۔ / Reuters

عالمی رہنماؤں نے غزہ کی  خود مختاری ،  تعمیرِ نو اور سکیورٹی کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس کا قیام جیسے مقاصد پر مبنی  سلامتی کونسل میں غزہ  قرارداد کی منظوری پر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

قرارداد کو 13 ووٹ ملے جبکہ چین اور روس نے ممتنع رہنے  کو چُنا۔

کچھ لوگوں نے اس ووٹ کا خیرمقدم کیا اور اسے "امن کی راہ" اور جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔ جبکہ دیگر نے خدشات کا اظہار کیا کہ قرارداد واضح نہیں ہے۔

چند ردعمل کچھ یوں ہیں:

فلسطینی انتظامیہ

فلسطینی انتظامیہ نے وافاخبر ایجنسی کے ذریعے شائع کیے گئے ایک بیان میں اس قرارداد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔

"ریاستِ فلسطین نے آج رات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ پر امریکی مسودہ قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا، جو غزہ پٹی میں مستقل اور جامع جنگ بندی کے قیام، انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی، اور فلسطینی عوام کے خود ارادیت اور اپنی آزاد ریاست کے قیام کے حق کی تصدیق کرتی ہے۔"

"فلسطین نے زور دیا  ہے کہ اس قرارداد کو فوری طور پر عملی جامہ پہنانا ضروری ہے،  تاکہ معمولات ِ زندگی  بحال ہو،  عوام کے غزہ  کی پٹی میں تحفظ یقینی بنایا جائے، بے دخلی روکی جائے، قابض افواج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے، تعمیرِ نو ممکن ہو، دو ریاستی حل کو نقصان پہنچنے سے روکا جائے اور الحاق سے بازآیا  جائے۔"

انتظامیہ  نے مزید کہا کہ وہ امریکہ، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، عرب اور مسلم ریاستوں کے ساتھ مل کر قرارداد کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کی خواہاں ہے۔

حماس

مسلح مزاحمتی گروپ حماس نے قرارداد کی منظوری کی مخالفت کی، کہا کہ غزہ کے فلسطینی عوام اور سیاسی گروپ  مخالفت کرتے ہیں۔

"قرارداد غزہ پٹی پر ایک بین الاقوامی سرپرستی کا میکانزم نافذ کرتی ہے، جسے ہمارے عوام اور ان کی فصائل مسترد کرتی ہیں۔"

"بین الاقوامی فورس کو غزہ پٹی کے اندر فرائض اور کردار سونپنا، بشمول مزاحمت کو غیر مسلح کرنا، اس کی غیر جانب داری کو ختم کر کے اسے قابض قوت کے حق میں تنازعہ کا حصہ بنا دیتا ہے۔"

حماس نے کہا کہ کسی بھی بین الاقوامی فورس کی صورت میں "یہ فورس صرف سرحدوں پر تعینات ہو تاکہ قوتوں کو الگ کیا جا سکے، جنگ بندی کی نگرانی کرے، اور مکمل طور پر اقوامِ متحدہ کی نگران میں ہو۔"

ریاستِ متحدہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قرارداد کی منظوری کا جشن منایا اور کہا کہ یہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منظوریوں میں سے ایک شمار ہوگی۔

ٹرمپ نے اپنی ٹروتھ سوشل پوسٹ میں کہاہے کہ"اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی حیرت انگیز ووٹنگ  پر دنیا کو مبارکباد، ابھی چند لمحے قبل امن بورڈ کی تصدیق اور تائید کی گئی، جس کی صدارت مجھے سونپی گئی ہےاور اس میں دنیا کے بااثر اور معزز رہنما شامل ہوں گے۔"

"یہ اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی ایک بڑی منظوریوں میں شمار ہوگی، دنیا بھر میں مزید امن کی راہ کھولے گی، اور یہ ایک تاریخی لمحہ ہے!" انہوں نے مزید کہا کہ "بورڈ کے اراکین کا آئندہ چند ہفتوں میں اعلان کیا جائیگا۔"

اقوامِ متحدہ

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹرس نے بھی قرارداد کے اپنائے جانے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ جنگ بندی کو مستحکم کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔

ان کے ترجمان اسٹیفاندوجارچ  نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ: "سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ پر قرارداد کی منظوری جنگ بندی کے استحکام کے لیے ایک اہم قدم ہے، جس کی پیروی کے لیے سیکرٹری جنرل تمام فریقین  پر زور دیتے ہیں۔"

گوٹریس نے سفارتی کوششوں کو زمینی سطح پر فوری اور ٹھوس اقدامات میں بدلنے کی ضرورت پر زور دیا: "اب اس سفارتی رفتار کو فوری اور ضروری اقدامات میں تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔" انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ قرارداد میں اس کے سپرد کردہ کردار کو نافذ کرنے، غزہ میں عام شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انسانی امداد میں اضافہ کرنے، اور فریقین کو جنگ بندی کے اگلے مرحلے کی طرف لانے کی کوششوں کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔

روس

روس کے اقوامِ متحدہ منظِم واسلی نیبینزیا کا موقف تھا کہ قانونی امور سے متعلق "اہم اجزاء" پر غور نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا: "اس میں غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے وقت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں، امن بورڈ اور قومی استحکام فورس ISF کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں ہے، جو بلا تفریق رم اللہ کی پوزیشن یا رائے کے متن کے مطابق بظاہر بالکل خود مختار کارروائی کر سکے گی ۔"

انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد "نوآبادیاتی عمل اور لیگ آف نیشنز، برطانوی مینڈیٹ برائے فلسطین کی یاد دلاتی ہے، جب فلسطینیوں کی رائے کا حساب نہیں رکھا گیا تھا۔"

چین

چین کے اقوامِ متحدہ مندوب فو کونگ نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ قرارداد "کئی پہلوؤں میں ناکافی اورکافی  تشویشناک" ہے، اور اسے "بہت سے حساس عناصر پر مبہم اور غیر واضح" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ "مسودہ قرارداد غزہ کے بعد از جنگ حکمرانی کے انتظامات کا خاکہ پیش کرتی ہے، مگر اس میں فلسطین بمشکل دکھائی دیتا ہے، اور فلسطینی خود مختاری اور ملکیت پوری طرح منعکس نہیں ہوئی۔" انڈونیشیا

انڈونیشیا کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان یون میوینگ کانگ نے کہا کہ وہ اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ہر فریق خاص طور پر فلسطینی انتظامیہ  کی شمولیت ضروری ہے۔

"قرارداد تنازعہ کے حل اور فلسطینی اتھارٹی کی صلاحیت سازی کے ذریعے دیرپا امن کو ترجیح دیتی ہے،" یون نے بیان میں کہا۔ "انڈونیشیا ہمیشہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی قوم کی حمایت کرے گا۔"