پاکستان اور افغانستان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم ازکم 5 افراد ہلاک

پاکستان مکمل طور پر چوکس اور اپنے علاقائی سالمیت اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے، حکومتِ پاکستان

By
اکتوبر کی جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جو 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سرحد پر ہونے والا بدترین تشدد ہے۔ / AP

پاکستان اور افغانستان کے حکام کے مطابق  جمعے کے روز رات گئے سرحدی علاقے میں دونوں جانب سے شدید فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں کم ازکم پانچ افراد ہلاک ہوگئے، یہ کشیدگی گزشتہ  ہفتے کے آخر میں ہونے والے امن مذاکرات کے بعد بڑھ گئی ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستانی افواج نے قندھار صوبے کے ضلع اسپن بولدک میں حملے کیے۔

ان کے نائب حمد اللہ فطرا نے بتایا کہ پاکستانی گولہ باری میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک طالبان رکن بھی شامل ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ افغان فورسز نے چمن بارڈر کے مقام پر 'بلا اشتعال فائرنگ' کی۔

حکومتی ترجمان مشرف زیدی نے ایک بیان میں کہا کہ "پاکستان مکمل طور پر چوکس اور اپنے علاقائی سالمیت اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔"

مذاکراتی عمل

یہ تبادلہِ فائر اس وقت ہوا جب جنوبی ایشیائی ہمسایہ ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کے ایک نئے دور کے ختم ہونے کو تقریباً ایک ہفتہ گزرا تھا، جو کسی نمایاں پیش رفت کے بغیر ختم ہوا۔

گزشتہ ہفتے کے آخر میں سعودی عرب میں ہونے والے یہ مذاکرات قطر، ترکیہ اور سعودی عرب کی میزبانی میں تناؤ کم کرنے کے لیے ہونے والے کئی اجلاسوں میں تازہ ترین تھے، جو اکتوبر میں ہونے والی مہلک سرحدی جھڑپوں کے بعد منعقد کیے گئے تھے۔

جھڑپ کی وجہ کے مرکز میں اسلام آباد کا موقف ہے کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے حالیہ حملے کیے ہیں، جن میں افغان شہریوں کے ملوث خود کش بم حملے بھی شامل ہیں۔ کابل نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اسے  پاکستان کے اندر سلامتی کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اکتوبر کی جھڑپوں میں درجنوں ہلاک ہوئے تھے، جو 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سرحد پر ہونے والی بدترین پرتشدد کارروائی تھی۔