رائے
غّزہ جنگ
7 منٹ پڑھنے
اسرائیل کی نسل کُشی جنگ مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو بھی نگل رہی ہے
00:00
اسرائیل کی نسل کُشی جنگ مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو بھی نگل رہی ہے
14 فروری 2025

اسرائیل کی نسل کُشی جنگ مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو بھی نگل رہی ہے

اسرائیل کی طرف سے جاری نسلی صفائی مہم کی شکار غزّہ اور لبنان کی عیسائی برادریوں کو بھی تحفظ ملنا چاہیے۔

غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور اس ہفتے  تک لبنان میں موجود عیسائی برادریوں کی سنگین حالت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر جاری تنازعات کے درمیان ایک عاجل  مسئلہ بن چکی  ہے۔ اسرائیل کی نسل کشی مہم اور قبضہ پالیسیاں جاری  ہیں اور اس دوران، عرب عیسائیوں کو بڑے پیمانے پر ظلم، معاشی بدحالی اور بے دخلی کا سامنا ہے۔ یہ عوامل  ان کی بقا اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ  خدشات پیدا کر رہے ہیں۔

تشدد کی  ایک  انسانی قیمت تو لامحالہ ہے ہی لیکن اس کے علاوہ  ایک قوم کے ثقافتی و مذہبی ورثے کا حقیقی معنوں میں خاتمہ بھی ممکن ہے۔ جنوبی لبنان میں اسرائیلی افواج نے  'دیئر میماس' نامی عیسائی گاؤں کے ایک چرچ کی بے حرمتی کی اور  فضائی بمباریاں کر کے  شام اور لبنان میں واقع دوسرے قدیم ترین ایونجلیکل چرچ کو تباہ کر دیا۔

یہ اقدامات وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو کی، اس خطّے میں دیرینہ تاریخی جڑوں والے اقلیتی گروہ یعنی عرب عیسائیوں کو نشانہ بنانے کی،  عادت کا ایک حصہ ہیں ۔

اس دوران، غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں نے مغربی کنارے پر قبضے کے دوران فلسطینی عیسائیوں کی زمینیں چھین کر بے شمار خاندانوں کو بے گھر کر دیا۔ بین الاقوامی مداخلت کی کمی کے ساتھ مل کر، فلسطینی عیسائیوں کو نقل مکانی اور آبادیاتی ہیر پھیر کے خلاف خود اپنی مدد آپ کرنی پڑ رہی ہے۔ اور بھی بہت کچھ ہے۔

نتن یاہو کے آبادیاتی منصوبے

نیتان یاہو کی پالیسیوں نے اس بارے میں خدشات میں اضافہ کر دیا ہے کہ عرب عیسائیوں کو قصداً الگ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹرچ کی جانب سے پیش کردہ 2024 کا آبادکاری منصوبہ ،گش عتصیون بلاک میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو یروشلم سے جوڑنے اور مغربی کنارے میں، باقی ماندہ چند عیسائی دیہاتوں سمیت فلسطینی علاقوں پر قبضے کا ارادہ رکھتا ہے۔

یہ منصوبہ نہ صرف عیسائی رہائشیوں کو بے گھر کر رہا ہے بلکہ ان علاقوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو بھی تبدیل کر رہا ہے۔ مثال کے طور پرعلاقے کے نادر مضبوط عیسائی مقامات میں سے ایک یعنی  'المخرور وادی' کو خطرہ لاحق ہے کہ اسے  آبادکاری کے توسیعی منصوبے نگل لیں گے۔ ان پالیسیوں پر نیتان یاہو کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ وہ ،فلسطین میں عیسائی موجودگی کے خاتمے کے لئےاختیار کردہ   جبری نقل مکانی اور آبادیاتی انجینئرنگ کی وسیع تر حکمت عملی میں شریک ہے۔

ان تشویشناک پیش رفتوں کے باوجود بین الاقوامی ردعمل بڑی حد تک خاموش رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کی مذمت پر مبنی قراردادیں  منظور کیں لیکن اس کے بعد کوئی ٹھوس پابندیاں یا مربوط کارروائی نہیں کی گئی۔ احتساب کی اس کمی نے عرب عیسائیوں کے خلاف  حق تلفیاں جاری رکھنے کی اجازت دی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے میں عالمی برادری کے پریشان کن دوہرے معیار کو مضبوط کر رہی ہے

یہ صورتحال وقتاً فوقتاً عالمی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بنتی رہی ہے۔ پوپ فرانسس نے 2024 کے اواخر میں غزہ کی صورتحال کو  "ممکنہ" نسل کشی کے طور پر بیان کردہ صورتحال کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ تاہم، بحران کو "ممکنہ" قرار دینا تلخ حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔ اورجیسا کہ نیتان یاہو اور دیگر اسرائیلی حکام کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے گرفتاری وارنٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عرب عیسائی انسانیت سوز جرائم کے مترادف  منظم ظلم کا سامنا کر رہے ہیں ۔

عیسائیوں کے خلاف بین الاقوامی نسل کشی کا ایجنڈا

عرب عیسائیوں پر ظلم، غزہ اور مغربی کنارے تک محدود نہیں ہے۔ یہ ظلم، اسرائیل کے اندر وسیع تر عرب مسئلے کے طور پر دیکھی جانے والی اور عرب عیسائیوں کو ختم کرنے والی ماورائے قوم حکمت عملی کا ایک حصّہ ہے۔ وہی وسیع تر عرب مسئلہ کہ جس کی طرف غزّہ نسل کُشی شروع ہونے سے قبل نیتان یاہو نے اشارہ کیا تھا۔

لبنان میں کہ جہاں عیسائی، کُل آبادی کا، نصف سے کم حصہ ہیں، اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے ایک سال تک عیسائی اکثریتی علاقوں کو تباہ کیا اور اس ہفتے کی جنگ بندی سے پہلے گزشتہ دو ماہ میں یہ کاروائیاں شدت اختیار کر گئیں۔ مشرقی بیروت اور لبنان کے شمالی ساحلی پہاڑی علاقے اسرائیلی بمباری سے شدید متاثر ہوئے۔ گرجا گھروں کو، جو لبنانی عیسائی شناخت کی اہم علامات ہیں، تباہ کر کے معاشرے کے ثقافتی اور مذہبی تانے بانے کو مزید کمزور کر دیا گیا۔

یہ قابل غور ہے کہ عیسائی علاقوں پر ان حملوں کا حزب اللہ کو نشانہ بنانے جیسے فوجی مقاصد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جس میں لبنانی فورسز پارٹی کے سمیر جعجع جیسی اہم سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں، بہت سے لبنانی عیسائیوں نے حزب اللہ کی کارروائیوں کی کھلے عام مذمت کی۔ یہ صورتحال اسرائیلی قومی سلامتی کے لیے بمباری کی ضرورت کے دعوے کو کمزور کرتی  اور اس کی بجائے عرب عیسائیوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی مہم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اسرائیل میں اندرونی ظلم

عرب عیسائیوں کو درپیش مشکلات اسرائیل کی سرحدوں کے اندر آباد لوگوں کا بھی احاطہ کر رہی ہیں۔ یروشلم میں قائم روسنگ سنٹر کی 2024 کی ایک رپورٹ نے اسرائیلی عیسائیوں، جن میں زیادہ تر عرب نژاد ہیں، کے خلاف وسیع پیمانے پر ہراسانی اور املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی دستاویز سازی کی ہے۔ انتہا پسند آرتھوڈوکس صیہونی گروپوں نے مذہبی تقریبات میں خلل ڈالنے سمیت دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے ان معاملات سے نمٹنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی ہے۔ نیتان یاہو کی حکومت نے مجرموں کے خلاف کارروائی نہ کر کے ایسے رویے کی خاموش منظوری کا اشارہ دیا ہے۔

یہ لاپرواہی اسرائیلی معاشرے میں صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کو بھی الگ تھلگ کرنے والے وسیع تر صیہونی برتری کے ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہے۔

عرب عیسائیوں کو منّظم شکل میں ہدف بنایا جانا ، غیر صیہونی معاشروں کو گھر سے بے گھر کر کے یا پھر مکمل طور پر ختم کر کے علاقے میں صیہونی برتری کو مضبوط بنانے  سے متعلقہ زیادہ وسیع حکمت عملی کا ایک حصّہ ہے۔

یہ صورتحال،اسرائیل کو اس کی کاروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی خاطر، بین الاقوامی برادری کے لئے ایک اخلاقی مجبوری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ سفارتی تنہائی، اقتصادی پابندیاں اور عسکری حد بندیاں، ان خلاف ورزیوں کے سدّباب کے لئے اور متاثرہ برادریوں کو انصاف کی فراہمی کے لئے، ایک ضروری ہتھیار ہیں۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی ردعمل ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ غزّہ، مقبوضہ مغربی کنارہ اور لبنان کےعیسائی عربوں کی صورتحال اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ ان کے حقوق اور میراث کے تحفظ کے لئے ایک متحدہ بین الاقوامی مداخلت کی فوری ضرورت ہے۔ یہ برادریاں محض جنگی نقصان نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے وجود کو ختم کرنے کے زیرِ مقصد اختیار کی گئی ارادی پالیسیوں کا نشانہ بھی ہیں۔

عرب عیسائی صدیوں سے مشرق وسطیٰ کے ثقافتی و دینی  موازائیک کا ایک ناگزیر حصّہ بن چُکے ہیں۔ان برادریوں کا تحفظ صرف  عدل و انصاف کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی پُرثروت اجتماعی تاریخ کا ایک ثبوت بھی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری اس مسئلے کو حل کرے گی یا پھر ان معاشروں کے مسائل کی طرف سے لاپرواہی ہی برتتی رہے گی۔

دریافت کیجیے
غزہ میں امن کا مطلب یہ نہیں کہ نسل کشی معاف کر دی جائے: سانچیز
اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شروع کر دی
اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 1,968 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے
اسرائیل دو سال میں پہلی بار فلسطینیوں کو غزہ واپسی کی اجازت دے رہا ہے
اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کا اعلان کر دیا
اسرائیلی کابینہ  نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی
غزہ جنگ بندی منصوبے پر دن 12 بجے دستخط کئے جائیں گے
حماس: 20 زندہ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کروایا جائے گا
اسرائیل اور حماس جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے پر متفق ہو گئے ہیں:ٹرمپ
حماس: فہرستوں کا تبادلہ ہو گیا ہے
اسرائیل کا، آزادی فلوٹیلا اتحاد پر، حملہ
اسرائیل، ٹرمپ کے مطالبے کو، کلّیتاً نظر انداز کر رہا ہے: غزّہ حکومت
"غزہ میں اسرائیلی نسل کشی برقرار" قحط و موت کے سائے میں بلبلاتی عوام کی آہ و پکار
امریکہ جنگ کی فنڈنگ کر رہا ہے
حماس-ثالثین مذاکرات کا پہلا دور 'مثبت ماحول' میں ختم ہوا ہے: مصری ذرائع ابلاغ
ترکیہ نے صمود فلوٹیلا کے کارکنان کے خلاف انسانیت سوز جرائم کے شواہد جمع کیے ہیں
ہمیں اسرائیلی حراست میں 'لفظی اور جسمانی' تشدد کا سامنا کرنا پڑا — مراکشی صحافی
غزّہ محاصرہ شکن بین الاقوامی کمیٹی: امدادی قافلہ غزّہ کے قریب پہنچ گیا ہے
حماس: ہتھیار ڈالنے سے متعلقہ خبریں بے بنیاد ہیں اور تحریک کا موقف مسخ کرنے کے لئے پھیلائی جا رہی ہیں
ٹرمپ: مصر میں حماس کے وفود کے ساتھ مثبت مذاکرات ہو رہے ہیں