صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہےکہ ترکیہ اور امریکہ نے اپنے تعلقات "ایک نئے اور مثبت مرحلے" میں داخل ہوئے ہیں، یہ پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد سامنے آئی ہے جس میں دفاع، تجارت اور علاقائی استحکام پر توجہ دی گئی۔
بدھ کے روز آذربائیجان سے واپسی پر طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایردوان نے کہا کہ ان کا حالیہ دورہ امریکہ اور ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت نے ان مسائل پر "حوصلہ افزا اشارے" دیے ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں دو طرفہ تعلقات کو کشیدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا، "ہم نے ایف-35 پروگرام اور CAATSA پابندیوں پر بات کی اور صدر ٹرمپ سے تعمیری پیغامات ملے ہیں۔"
ایردوان نے مزید کہا، "ترکیہ ایف-35 منصوبے میں ایک مالی شراکت دار ہے۔ ہمیں اس پروگرام سے نکالنا غیر منصفانہ تھا، اور ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ لڑاکا طیارے کے منصوبے اور پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے تکنیکی بات چیت جاری ہے۔"ہم امید کرتے ہیں کہ یہ عمل مثبت طور پر مکمل ہوگا۔ ہمارا دورہ ، ترکیہ-امریکہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے — ایسا دور جو ہماری دوستی اور باہمی روابط کو مضبوط بنائے گا۔"
خلق بینک کیس "اب کوئی مسئلہ نہیں"
صدر نے یہ بھی کہا کہ طویل عرصے سے متنازعہ خلق بینک کیس، جس نے انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کو بگاڑا تھا ، مؤثر طور پر حل ہو چکا ہے۔
ترک صدر نے بتایا کہ ، "صدر ٹرمپ نے مجھے ہماری ملاقاتوں کے دوران اور ہماری آخری فون کال میں بتایا تھا 'خلق بینک کا مسئلہ ہمارے لیے ختم ہو چکا ہے۔' یہ بیان سیاسی عزم کا ایک اہم اظہار ہے۔"
اگرچہ کچھ رسمی اقدامات باقی ہیں، تا ہم، ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد ہی باضابطہ طور پر بند ہو جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا، "ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل جلد اور مثبت طور پر مکمل ہو۔"
غزہ میں جنگ بندی میں ترکیہ کا کردار
اردوان نے علاقائی بحرانوں، بشمول غزہ اور شام کی صورتحال پر بھی بات کی، اور کہا کہ ترکی کی سفارت کاری اور سیکیورٹی کوآرڈینیشن "اعلیٰ ترین سطح پر" جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ انقرہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے امریکہ، مصر، اور حماس کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ترکیہ کے انٹیلیجنس چیف شارم الشیخ میں جاری مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایردوان نے کہا، "ترکیہ تمام مخلص امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے،" انہوں نے اسرائیل کو مذاکرات کو نقصان پہنچانے سے خبردار کیا۔ "ہماری ترجیح ایک مکمل اور مستقل جنگ بندی، بلا روک ٹوک انسانی امداد، اور فلسطینیوں کے لیے غزہ کی تعمیر نو ہے۔"
شام کے بارے میں، ایردوان نے زور دیا کہ ترکیہ دہشت گرد SDF، جو ک پابندیاں عائد PKK اور YPG تنظیموں کے زیر اثر ہے، یا دیگر غیر ملکی اشتعال انگیزیوں سے پیدا ہونے والی نئی عدم استحکام کی اجازت نہیں دے گا۔
انہوں نے کہا، "ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم کبھی بھی شام کی علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جو انقرہ اور دمشق کے ساتھ صف بندی کریں گے وہ کامیاب ہوں گے۔"
ترکیہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے
آذربائیجان کے دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ایردوان نے کہا کہ ترک ریاستوں کی تنظیم (OTS) میں ترکیہ کی قیادت اب ثقافتی تعاون سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔
انہوں نے کہا، "OTS اب صرف ایک ثقافتی اتحاد نہیں بلکہ اسٹریٹجک یکجہتی کا ایک پلیٹ فارم ہے۔" "انٹیلیجنس سے لے کر سرحدی سلامتی اور سائبر دفاع تک، ہمارا تعاون گہرا ہو رہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ترکیہ کا عالمی اثر و رسوخ ایک بار پھر صمود فلوٹیلا آپریشن کے ذریعے سامنے آیا ہے، جس میں ترک کوششوں نے اسرائیل کے زیر حراست درجنوں کارکنوں کی رہائی کو یقینی بنایا۔
ایردوان نے کہا، "یہ ترکیہ کی فوری انسانی اور سفارتی کارروائی کی صلاحیت کا مظہر ہے ہم نے ہر خلاف ورزی کو دستاویزی شکل دی، اور ہم سفارت کاری اور قانون کے ذریعے انصاف کے لیے کوشش کریں گے۔"














