کوکا کہانی
00:00
00:0000:00
ثقافت
کوکا کہانی
دنیا میں  کوکو کے سب سے بڑے کاشتکار ممالک  اس زرعی جنس سے  سب سے کم فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں؟
13 دسمبر 2024

کوکو ، دنیا کے پسندیدہ میٹھے یعنی 'چاکلیٹ' کا بنیادی جزو ہے ۔ ہم یہ سوچے بغیر کہ آخر یہ 'کوکو'  کہاں سے آتا ہے چاکلیٹ سے  لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ لیکن چاکلیٹ کا  ہر ٹکڑا منہ میں رکھنے سے اصل میں ہم محنت اور ناانصافی کی پیچیدہ کہانی کا ذائقہ بھی  چکھتے ہیں۔ اس قسط میں، ہم دیکھیں گے کہ دنیا میں  کوکو کے سب سے بڑے کاشتکار ممالک  اس زرعی جنس سے  سب سے کم فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں؟

  

آئیے مغربی افریقہ سے شروع کرتے ہیں۔ جہاں بین الاقوامی کوکو تنظیم کی  رپورٹ کے مطابق  دنیا کا 70% سے زیادہ 'کوکو' اُگایا جاتا ہے۔ مغربی افریقہ کے ممالک کوٹ ڈی آئیور اور گھانا دنیا میں کوکو کی  سب سے زیادہ پیداوار دینے والے ملک ہیں۔ لیکن قابل توجہ  اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کوکو کا اصل وطن جنوبی افریقہ نہیں ہے۔ اس زرعی جنس کا آبائی وطن  جنوبی امریکہ کاامازون  بارانی جنگل ہے۔

افریقہ میں کوکو کی کاشت 1800 میں شروع ہوئی۔  اس دور میں یہ علاقہ  یورپ کی کالونی تھا اور پرتگالیوں نے یورپ کی کوکو طلب کو پورا کرنے کے لئے علاقے کو اس زرعی جنس سے متعارف کروایا۔

کوکو  کی ترقی پذیر صنعت کے باوجود اس جنس کو  براعظم افریقہ میں  اگایا جاتا اور خام بیج کی پراسیسنگ کے بعد اس کی قدر میں اضافے کے لئے دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ افریقی ممالک کی آزادی کے بعد حالات بدل  گئے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چاکلیٹ  انڈسٹری جس چاکلیٹ کی فروخت سے اربوں ڈالر کماتی ہے اس کی کوکو پھلیوں کی کاشت کے لئے اب بھی معمولی اُجرت کے بدلے لاکھوں چھوٹے کسان سخت محنت کرتے ہیں ۔

  

ابا بیلو، نائجیریا کے ایکسپورٹ-امپورٹ بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر، نے بتایا  ہے کہ پھلیوں، کوکو  ٹکیوں اور چاکلیٹ پر مشتمل کوکو  انڈسٹری کی سالانہ قدر 200 بلین امریکی ڈالر ہے۔ لیکن کوکو کی ایک بڑی مقدار پیدا کرنے کے باوجود مغربی افریقہ کو اس سے صرف 10 بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جرمنی، جہاں کوکواُگایا ہی نہیں جاتا، کوکو مصنوعات کی برآمد سے 57.3 بلین ڈالر کما چُکا ہے۔

 

سوال یہ ہے کہ یہ اس طرح کیونکرہوا؟ جواب کوکو کی تجارت کے طریقہ کار میں مضمر ہے۔ افریقی ممالک عام طور پر کچی کوکو پھلیاں برآمد کرتے ہیں، جو کم قیمت والی جنس قبول کی جاتی ہیں۔ کوکو کے کسان اپنی پھلیاں بین الاقوامی تاجروں کو بیچتے ہیں جو انہیں کہیں اور پروسیس کرتے اور برآمد کرتے ہیں۔ بڑی کمپنیاں قیمتیں طے کرتی ہیں لیکن کسانوں کو  اپنی کمائی پر زیادہ کنٹرول نہیں ہوتا۔ وہ ممالک جو کوکو پھلیوں کو چاکلیٹ اور دیگر مصنوعات میں تبدیل کرتے ہیں، اصل منافع ان کی جیب میں جاتا ہے۔

 

فیئر ٹریڈ فاؤنڈیشن کے مطابق، ہر فروخت ہونے والے چاکلیٹ بار کی قیمت کا  صرف 6% کے لگ بھگ  کسان کے پاس جاتا ہے۔  تو باقی 94%کہاں جاتا ہے؟یہ بڑا حصّہ  تاجروں، مینوفیکچرروں اور ریٹیلروں  کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے۔ یقیناً اس تقسیم میں بھی بڑا ترین لقمہ  بڑی کثیر القومی کمپنیوں کو ملتا ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ نائجیریا اور گھانا جیسے ممالک نے اپنے کسانوں کے لیے بہتر قیمتوں کی یقین دہانی کے لیے کوکو مارکیٹنگ بورڈز قائم کیے ہیں۔ ایک کامیاب کہانی نائجیریا کا مشہور کوکو ہاؤس ہے، جو ابیدان میں واقع ہے۔ کوکو ہاوس مغربی افریقہ کی پہلی فلک بوس عمارت۔ یہ عمارت کوکو کی برآمد سے حاصل ہونے والے عطیات سے تعمیر کی گئی تھی۔ اگرچہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوشش کی جائے تو   کیا کچھ ممکن  بنایا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی ابھی بہت سے چیلنج باقی ہیں۔ ڈاکٹر پیٹرک اوپوکو آسومنگ، جو گھانا یونیورسٹی بزنس اسکول میں ایک ماہر اقتصادیات اور سینئر لیکچرر ہیں، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ افریقی ممالک فرق لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید وہ غلط چیزوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ ویلیو چین میں ترقی کے راستوں پر غور کرنے کی بجائے دہائیوں سےتوجہ کو کچی کوکو پھلیوں کی برآمد میں اضافے پر مرکوز رکھا گیا ہے ۔ اپنی کمائی میں اضافے  کے لیے، افریقہ کو کوکو پھلیوں کو پاؤڈر اور چاکلیٹ کی شکل میں پراسیس کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر پیٹرک  کی تجویز ہے کہ کوکو کے پودے کے دیگر حصوں کے  اختراعی استعمال کے طریقے  تلاش کئے جائیں مثلاً جن پھلیوں کو ضائع کر دیا جاتا ہے انہیں صابن بنانے میں استعمال کیاجا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ افریقن براعظمی آزاد تجارتی علاقے کے فوری نفاذ کی حمایت کرتے ہیں، یہ تجارتی زون تجارتی رکاوٹوں کو کم کرے گا اور افریقہ میں کوکو مصنوعات کی تجارت، پراسیسنگ اور کوکو مصنوعات سے لطف اندوز ی کو آسان بنائے گا۔

  

تاہم، مسئلہ صرف منافع سے کہیں آگے تک جاتا ہے۔ نظریاتی حوالے سے دیکھا جائے تو سب بہت اچھا لگتا ہے، لیکن عملی حوالے سے اس راستے میں بہت سی لاجسٹک رکاوٹیں حائل ہیں۔ کوکو کی کاشتکاری ماحول کے لیے بھی حساس ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب کم قابل پیش گوئی موسم ہوتا ہے، جو فصلوں کے معیار اور مقدار کو متاثر کرتا ہے۔ کوکو کے کسان اکثر سخت حالات میں کام کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے پاس جدید زرعی آلات یا زرعی تربیت ہی نہیں ہوتی۔ ایسی تربیت  جو انہیں حالات کے مطابق ڈھلنے میں مدد دے سکے۔ انہیں بجلی کی غیر مستحکم فراہمی اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب ایسی چیزیں  ہیں جو کامیاب چاکلیٹ انڈسٹری کے قیام کے لیے اشد ضروری ہیں۔ زیادہ تر کسان ایک دن میں ایک ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ کہیں تو حالات ایسے ہیں کہ بچے بھی مزدوری میں شامل ہوتے ہیں، جسے ناانصافی کی ایک اور تہہ ہے۔

 

لیکن ابھی بھی امید باقی ہے۔ فیئر ٹریڈ جیسے اقدامات اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہیں کہ کسانوں کو بہتر قیمتیں ملیں اور وہ محفوظ حالات میں کام کریں۔ یہ پروگرام زیادہ منصفانہ معاوضے کی طرف ایک قدم ہیں باوجودیکہ  یہ سب اقدامات صنعت کے صرف ایک حصے کا احاطہ کرتے ہیں۔ حقیقی، نظامی، تبدیلیوں کے لیے کوکو کی صنعت کےطریقہ کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں درکار ہوں گی—ایسی تبدیلیاں جو عالمی منڈی سے لے کر چاکلیٹ کے دلدادہ صارفین تک کا احاطہ کریں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا اور بیک وقت ڈیری کی صنعت کو بڑھانا بھی کوکو کی مقامی پروسیسنگ اور کھپت میں اضافے  کا باعث بنے گا۔ دودھ اور چاکلیٹ کی پیداوار ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ  ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اگرچہ افریقہ میں ڈیری کی صنعتیں موجود ہیں، لیکن مجموعی طور پر اس صنعت کا معیار  دنیا کے دیگر حصوں کے ہم پلّہ  نہیں ہے۔ لہذا یہ ایک اور قابلِ غور مسئلہ ہے ۔ آخرکار، یہ توازن کو تبدیل کرنے کی بات ہے۔ توازن کی تبدیلی خام مال کی برآمد پر انحصار میں کمی اور افریقہ میں ایک مضبوط چاکلیٹ انڈسٹری کی تعمیر میں مضمر ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو کوکو صنعت میں افریقہ کے حصے میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، وہ ممالک جو سب سے زیادہ کوکو اگاتے ہیں، سب سے کم فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

 

اس قسط کو سننے  کا شکریہ  اگلی قسط تک ہمارے ساتھ رہیے! یہ پوڈکاسٹ، TRT افریقہ کے لیے عبدالواسع حسن کے ایک مضمون سے تصّرف شدہ ہے۔

 

مزید آڈیوز
خبرنامہ |05.12.25
سگریٹ نوشی کی ماحولیاتی لاگت
ترک طلبا ء نے سیرن میں تاریخ رقم کر دی
موسمیاتی تبدیلی کانفرس
پلاسٹک کی آلودگی کا بحران
ترک ریاستیں مشترکہ حروف تہجی کی متلاشی
عثمانی حجاز ریلوے لائن دوبارہ عازمین حج کی کیسے خدمت کر سکتی ہے؟
کھیلوں کے میدان میں ترکیہ کا سنہری دور
ترقی پذیر ملک چین
کیا چاند پر جوہری پاور پلانٹس قائم کیے جائیں گے؟