غزّہ حکومت کے میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج، 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والے غزہ جنگ بندی معاہدے کی 194 خلاف ورزیاں کر چُکی ہے۔
دفتر کے سربراہ اسماعیل الثوابتہ نے اتوار کو اناطولیہ کے لئے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ان خلاف ورزیوں میں اسرائیلی فوج کی 'پیلی لائن' سے آگے دراندازیاں، طبی سامان، ادویات، خیموں اور موبائل گھروں کی ترسیل کی روک تھام، فائرنگ، گولہ باری اور دیگر فوجی کارروائیاں شامل ہیں۔
الثوابتہ نے کہا ہے کہ "جنگ بندی معاہدےسے ہمیں راحت کی امید تھی لیکن معاہدے کے نفاذ سے تا حال قابض فوج، فلسطینی عوام کے خلاف، 194 خلاف ورزیاں کر چُکی ہے۔ " انہوں نے مزید کہا ہے کہ ان کا دفتر ان خلاف ورزیوں کے بارے میں ثالثوں کو یومیہ رپورٹ پیش کرتا ہے۔
الثوابتہ نے کہا ہےکہ اسرائیلی افواج نے بار بار 'پیلی لائن' عبور کی، رہائشی علاقوں میں گاڑیاں بھیجیں، فضائی حملے کیے اور عمارتیں مسمار کی ہیں۔ ان سب خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بہت سے شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بغیر وارننگ کے نشانہ بننے کے خطرے کی وجہ سے فلسطینیوں کو 'پیلی لائن' کے قریب جانے سے پرہیز کرنے کے بارے میں خبردار کیا اور کہا ہے کہ اسرائیل نے پہلے بھی اس علاقے میں، اپنے تباہ شدہ گھروں کا جائزہ لیتے، شہریوں کو قتل کیا ہے ۔
'پیلی لائن' اس زون کو کہا جاتا ہے جہاں سے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ یہ ایک غیر جسمانی حد ہے جو، غزہ شہر کے جنوب اور خان یونس کے شمال میں، غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے ۔
الثوابتہ نے کہا ہے کہ اسرائیل نے نہ تو غزّہ میں امدادی قافلوں کے مکمل داخلے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی، بغرضِ علاج مریضوں کی بیرونِ ملک منتقلی کے لئے، مصر کے ساتھ رفح سرحدی چوکی کو کھولا ہے۔اسرائیل نے ادویات اور طبی سامان کے داخلے کو بھی روک رکھا ہے۔"
اسرائیل، مئی 2024 سے، رفح سرحدی چوکی کے فلسطینی حصے پر قبضہ کئے ہوئے ہے ۔ اس نے سرحدی کنٹرول چوکی کی تنصیب پر مشتمل فلسطینی عمارتوں کو تباہ کرنے کے بعد یہاں سے فلسطینیوں کے داخلہ و خروج پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
میڈیا دفتر کے مطابق، 10 اکتوبر سے مہینے کے آخر تک، صرف 3,203 ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں جبکہ معاہدے کے تحت 13,200 ٹرکوں کو علاقے میں داخل ہونا تھا۔ یہ تعداد معاہدے کے محض 24 فیصد حصّے کی تعمیل کا مفہوم رکھتی ہے۔جنگ بندی معاہدے میں ، ملبے سے لاشیں نکالنے کے لئے، علاقے میں بھاری مشینوں کے داخلے کی اجازت بھی شامل ہے ۔
الثوابتہ نے کہا ہے کہ "یہ اجازت صرف محدود پیمانے پر اور صرف اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی تلاش کے لیے استعمال ہونے والے سامان کے داخلے کے لیے دی گئی ہے۔لیکن غزہ میں تباہ شدہ گھروں کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشیں نکالنے کے لیے بھاری سامان کے داخلے پر پابندی مستقل جاری ہے۔
غزّہ میڈیا دفتر کے مطابق تقریباً 9,500 فلسطینی ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ یہ لاپتہ افراد یا تو ملبے کے نیچے ہیں یا ان کا کوئی پتہ نہیں۔
الثوابتہ نے کہا ہےکہ جنگ بندی معاہدے میں، بے گھر خاندانوں کو پناہ دینے کے لئے، 300,000 سے زائد خیموں اور موبائل گھروں کے داخلے کی شق بھی شامل ہے ۔تاہم، اسرائیل نے اس پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے 288,000 فلسطینی خاندان سڑکوں اور عوامی مقامات پر رہنے پر مجبور ہیں ۔
غزہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل نے علاقے کے 90 فیصد شہری انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے، جس سے ابتدائی نقصانات کا تخمینہ 70 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
الثوابتہ نے اسرائیل کو انسانی بحران کو قصداً بدتر بنانے کا قصوروار ٹھہرایا اور کہا ہے کہ اسرائیل نے رفح کے مصری حصے پر 6,000 سے زائد ٹرکوں کو روکا ہوا ہے۔
انہوں نے، اسرائیل کو معاہدے کی خلاف ورزیوں سے باز رکھنے اور مکمل عمل درآمد پر مجبور کرنے کے لئے، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بین الاقوامی ثالثوں سے مداخلت کی اپیل کی ہے ۔











