شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ اگر امریکہ یہ اصرار چھوڑ دے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ترک کرےتو ان کے ملک کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے گریز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اتوار کو سپریم پیپلز اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران کم نے کہا کہ انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی خوشگوار یادیں ہیں۔ دونوں رہنما ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران تین بار ملے تھے۔
کم نے کہا، "اگر امریکہ ہمیں غیر جوہری بنانے کی غیر معقول ضد چھوڑ دے، حقیقت کو قبول کرے، اور حقیقی پرامن بقائے باہمی چاہے، تو ہمارے لیے امریکہ کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔"
کم نے مزید کہا کہ ملک کے لیے جوہری ہتھیار بنانا بقا کا مسئلہ ہے تاکہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی سنگین دھمکیوں کے پیش نظر اپنی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے واشنگٹن اور سیول کی جانب سے حالیہ مذاکرات کی پیشکشوں کو غیر مخلص قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، کیونکہ ان کے مطابق ان کا بنیادی مقصد شمالی کوریا کو کمزور کرنا اور ان کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی کوریا کی جانب سے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو مرحلہ وار ختم کرنے کی تجویز اس بات کا ثبوت ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے جون میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اعتماد سازی کے اقدامات اور بالآخر شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں۔
لی نے کہا کہ شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے اور ان کوششوں میں ٹرمپ کا کردار کلیدی ہو گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کم کا جوہری پروگرام واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے تاکہ شمالی کوریا کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اقتصادی و سلامتی کے حوالے سے مراعات حاصل کی جا سکیں۔
وہ روایتی اتحادیوں روس اور چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط کر کے اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ایک ابھرتی ہوئی شراکت داری کا حصہ ہے۔
سیول میں یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ شمالی کوریا جزیرہ نما کوریا پر جوہری تنازع کو کم کرنے کی مستقبل کی کوششوں میں جنوبی کوریا کی آواز کو نظر انداز کر سکتا ہے کیونکہ شمالی کوریا براہ راست امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔