ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کا دوحہ میں مذاکراتی ٹیم پر حملہ ایک “بزدلانہ حملہ” تھا جو “بین الاقوامی نظام اور قانون کے لیے ایک کھلا چیلنج” ہے، جب اسرائیل نے غزہ، شام، لبنان، یمن اور ایران کے خلاف بھی جارحیت کی ہے۔
صدر ایردوان نے منگل کو دوحہ میں عرب-اسلامی ہنگامی اجلاس سے وطن واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “اس حملے نے ایک بار پھر اسرائیل کی قبضے کی ذہنیت اور دہشت گردانہ پالیسیوں کی حد کی عکاسی کی ہے۔”
صدر نے اس بات پر زور دیا کہ ترکیہ قطر اور فلسطینی عوام کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے، انہوں نے جاں بحق ہونے والوں کے لیے تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر معمولی اجلاس نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم اُمہ کے متحدہ موقف کا مظاہرہ کیا اور رہنماؤں نے تل ابیب کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی سمیت اضافی سفارتی اور اقتصادی اقدامات پر غور کرنے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ حتمی اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اسرائیلی جارحیت کا ہدف صرف فلسطین نہیں بلکہ تمام مسلم اقوام ہیں، اور اس کے اقدامات کو روکنے کے لیے "تمام ممکنہ قانونی اور مؤثر اقدامات"اپنانے کی اپیل کی گئی۔
ایردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے نیویارک اعلامیہ کی حالیہ منظوری کا خیرمقدم کیا، جسے 142 ووٹوں سے منظور کیا گیا، اور اسے دو ریاستی حل کے لیے سفارتی کوششوں میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔
انہوں نے کہا،"یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے اور ترکیہ کے موقف کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔"
جھوٹے منظرنامے
علاقائی کشیدگی پر بات کرتے ہوئے، ایردوان نے “جھوٹے منظرناموں” کو مسترد کیا جن میں “وعدہ شدہ زمین” کے بہانے سرحدوں کی دوبارہ تقسیم کی بات کی گئی۔ انہوں نے دلیل دی کہ ایسے دعوے قانونی طور پر بے بنیاد اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہیں، جو صرف اسرائیل "انتہا پسند اور فاشسٹ نظریے"کے ایجنڈے کی خدمت کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی قیادت نے انتہا پسند نظریے کو ایک"فاشسٹ قاتلوں کے نیٹ ورک” میں تبدیل کر دیا ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سب کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ معلومات، تعاون اور اتحاد کے ساتھ جواب دیں۔
جب آپ ان یہودیوں کو سنتے ہیں جو اسرائیل کی نسل کشی کی مخالفت کرتے ہیں، تو آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ صیہونیت کتنا خطرناک نظریہ ہے۔ اگر صیہونی اسرائیل کو کسی چیز سے جوڑا جائے تو وہ دہشت گردی اور فاشزم ہے۔
صدر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انقرہ فلسطینی دعوے کا “علمبردار” بننے کے لیے پرعزم رہے گا، اور اس بات پر زور دیا کہ ترکیہ کا حتمی مقصد خطے میں امن، انصاف اور انسانی وقار کو یقینی بنانا ہے۔