پاکستانی فوج پیر کے روز افغانستان کے ساتھ ملک کی سرحد پر ہائی الرٹ پر تھی جہاں حالیہ دنوں میں دونوں فریقین کے درمیان شدید جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ مبذول کروائی گئی تھی ، جنہوں نے کہا تھا کہ وہ تنازع کو ختم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
پاکستانی صنعت کے ایک نمائندے نے بتایا کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان سرحدی تجارت اس وقت رک گئی جب پاکستان نے 2,600 کلومیٹر (1,600 میل) سرحد بند کر دی ہے جس کے نتیجے میں دونوں طرف سامان سے بھری ہوئی متعدد گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔
ہمسایہ ممالک کے درمیان سب سے مہلک جھڑپوں میں ہفتے کی رات سے اب تک درجنوں طالبان ہلاک ہوگئے ہیں۔
دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب اسلام آباد نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ کیا ہے اور کہا تھا کہ وہ افغانستان میں موجود پناہ گاہوں میں روپوش ہیں۔
طالبان اس بات کی تردید کرتے آئے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد اس کی سرزمین پر موجود ہیں۔
یاد رہے کہ ٹی ٹی پی ایک کالعدم تنظیم ہے جو فوج اور شہریوں کے خلاف مہلک ترین حملوں کی ذمہ دار ہے
دونوں ملکوں کے درمیان پہاڑی سرحد غیر محفوظ ہے جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کا دونوں ممالک کے درمیان آنا جان نسبتا آسان ہو جاتا ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ سرحد پر 'موجودہ صورتحال' معمول پر ہے لیکن انہوں نے تفصیلات شیئر نہیں کیں۔
پاکستانی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ گاڑیوں اور راہگیروں کے لیے سرحدی گزرگاہیں بند ہونے کے بعد سرحد پر پاکستانی حکومت کے تمام دفاتر بند کر دیے گئے ہیں، جو تجارت اور دیگر انتظامی امور سے نمٹتے ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے کہا، "کنٹینرز اور ٹرکوں سمیت بھری ہوئی گاڑیاں سرحد کے دونوں اطراف پھنسی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ، وہ درآمدات اور برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان لے جا رہے ہیں اور دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ تاجروں کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
پاکستان خشکی سے گھرے اور غریب افغانستان کے لیے اشیا اور خوراک کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
اس لڑائی نے ٹرمپ کی توجہ مبذول کروائی ہے ، جنہوں نے کہا کہ وہ جلد ہی اس پر توجہ مرکوز کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز واشنگٹن سے اسرائیل جانے کے دوران ایئر فورس ون طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے سنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ جاری ہے،میرے واپس آنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ آپ جانتے ہیں ، میں ایک اور کام کر رہا ہوں لیکن بتادوں کہ میں جنگوں کو حل کرنے میں کافی اچھا ہوں ۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آخر میں ہونے والی جھڑپوں میں اس کے 23 فوجی مارے گئے ہیں جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ اس کے نو فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم ، دونوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ثبوت فراہم کیے بغیر دوسری طرف سے کہیں زیادہ جانی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے 200 سے زائد افغان طالبان اور اتحادی جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے جبکہ افغانستان نے کہا ہے کہ اس نے 58 پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
طالبان نے اتوار کے روز کہا تھا کہ انہوں نے قطر اور سعودی عرب کی درخواست پر حملے روک دیے ہیں۔