سعودی عرب کے میڈیا نے ریاض اور اسلام آباد کے درمیان دستخط شدہ ایک اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کو ایک "مزاحمتی پلیٹ فارم " کے طور پر پیش کیا ہے، جو دونوں ممالک کو اپنی مکمل فوجی صلاحیتوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
بدھ کے روز، ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ اس معاہدے پر دستخط کیے۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے ذریعے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان کے مطابق، اس معاہدے کا مقصد "سلامتی کو بڑھانا، خطے اور دنیا میں امن حاصل کرنا، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو ترقی دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ روک تھام کو مضبوط کرنا ہے۔"
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ "کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔"
ایک سینئر سعودی عہدیدار نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ "یہ معاہدہ کئی سالوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی خاص ملک یا واقعے کے ردعمل میں نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی ذرائع کو شامل کرتا ہے۔"
سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان، جو سعودی ولی عہد کے بھائی ہیں، نے اپنے سرکاری ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: "سعودی عرب اور پاکستان... کسی بھی جارح کے خلاف ایک محاذ... ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے۔"
اخبار عکاظ نے اس حوالے سے یہ سرخی لگائی: "ولی عہد اور پاکستانی وزیر اعظم نے اسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔" اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی شہروں میں نمایاں ٹاورز سعودی اور پاکستانی پرچموں سے روشن کیے گئے۔
اخبار عکاظ نے ایک کالم شائع کیا جس میں راقم متعب العواد نے اس دفاعی معاہدے کی تعریف کی ہے۔
کالم کے لیے یہ سرخی لگائی گئی : "اسلامی محاذ کی تاریخی مضبوطی: سعودی فضائی دفاع پاکستانی جوہری روک تھام کے ذریعے مکمل۔"
راقم نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک گہرا اور زیادہ مربوط مرحلہ شروع کرتا ہے اور اسے "علاقائی روک تھام کی نئی تعریف" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی اقتصادی طاقت اسے عالمی توانائی کے استحکام کا ضامن بناتی ہے۔
مصنف نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی جدید فوج اسے خطے کی اہم طاقتوں میں شامل کرتی ہے، اور اسلام کے مقدس ترین مقامات کی حفاظت اسے مسلم دنیا میں روحانی قیادت عطا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویژن 2030 نے دفاعی صنعتوں اور ہتھیاروں کی ترقی کے ذریعے فوجی جدیدیت کو تیز کیا ہے، جس سے ملک کو خلیج اور اسلامی سلامتی کے خلاف خطرات کے خلاف "پہلی دفاعی لائن" کے طور پر پوزیشن دی گئی ہے۔
مصنف نے کہا کہ پاکستان ایک اعلان شدہ جوہری طاقت ہے جس کے پاس میزائل ذخیرہ اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحیرہ عرب پر اس کا جغرافیائی مقام خلیج کو جنوبی ایشیا اور بحر ہند سے جوڑتا ہے، جبکہ اس کی بڑی آبادی اور دفاعی صنعت کی مہارت کسی بھی مشترکہ دفاعی انتظام میں اس کے کردار کو مضبوط کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ "ایک دو طرفہ اجتماعی سلامتی کی چھتری" بناتا ہے جو آپریشنل منصوبہ بندی، انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ مشقوں، بحری اور فضائی تعاون، اور دفاعی صنعت کی ترقی کا احاطہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تسلیم کرنا کہ "کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ ہے" ایک "مضبوط روک تھام کی چھت" قائم کرتا ہے جو خلیج اور اسلامی دنیا کی حفاظت کرنے کے قابل ہے۔
سیاسی تجزیہ کار منیف عماش الحربی نے کہا کہ یہ دفاعی معاہدہ ریاض اور اسلام آباد دونوں کو اپنی مکمل صلاحیتوں کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ "دونوں ممالک کو روک تھام کے لیے اپنی فوجی صلاحیتوں کے بغیر کسی استثناء کے استعمال کی اجازت دیتا ہے... اور علاقائی اور بین الاقوامی فریقوں کو ایک پیغام بھیجتا ہے۔"
سعودی فضائیہ کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل فیصل الحماد نے چینل کو بتایا کہ یہ معاہدہ "نیٹو کے اصول کو اپناتا ہے کہ ایک پر حملہ سب پر حملہ ہے۔"
پاکستانی اخبارات نے بھی دستخط شدہ دفاعی معاہدے کو نمایاں کوریج دی۔
ایس پی اے نے کہا کہ اسلام آباد میں فلک بوس عمارتیں سعودی اور پاکستانی جھنڈوں سے روشن کی گئیں۔
اخبار الریاض نے سرخی لگائی: "ولی عہد نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ ترقیاتی امور پر تبادلہ خیال کیا اوراسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔"
اخبار المدینہ نے کہا: "ولی عہد اور شہباز نے شراکت داری کا جائزہ لیا، اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ۔"
یہ دفاعی معاہدہ اسرائیلی حملے کے ایک ہفتے بعد ہوا، جس میں قطری دارالحکومت میں پانچ حماس امن مذاکرات کار اور ایک قطری سیکیورٹی افسر ہلاک ہوئے۔