امریکہ نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے جس میں غزہ میں "فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی" کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ ووٹنگ اس وقت ہوئی جب اسرائیل نے فلسطینی علاقے پر اپنے غیر قانونی قبضے کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی ڈیڈ لائن کو نظر انداز کر دیا۔
یہ قرارداد ڈنمارک نے سلامتی کونسل کے 10 منتخب اراکین کی جانب سے پیش کی تھی، جسے 14 ووٹوں کی حمایت حاصل ہوئی۔
قرارداد میں غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں اضافے اور اس کے نتیجے میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی تکالیف پر "شدید تشویش" کا اظہار کیا گیا۔
اس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ انسانی امداد کی ترسیل اور تقسیم پر عائد پابندیاں "فوری اور غیر مشروط طور پر" ختم کرے اور غزہ میں "کسی بھی قسم کی آبادیاتی یا علاقائی تبدیلی" کی کوششوں کو مسترد کیا گیا۔
امریکہ کی طرف سے غزہ میں قحط پر اقوام متحدہ کی رپورٹس کو چیلنج
ڈنمارک کی اقوام متحدہ کی سفیر کرسٹینا مارکس لاسن نے کہا کہ قرارداد تین فوری مطالبات پر مرکوز ہے۔
انہوں نے ووٹنگ سے پہلے کہا کہ"اس قرارداد کا واحد مقصد تکالیف کو کم کرنا اور اس نفرت انگیز جنگ کے خاتمے میں مدد فراہم کرنا ہے۔"
لیکن مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی نائبِ خصوصی صدارتی سفیر مورگن اورٹاگس نے،" متن "زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہے " کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی مخالفت "کسی کے لیے تعجب کا باعث نہیں ہو گی ۔
انہوں نے اسرائیل کا دفاع کیا اور غزہ میں قحط کے اقوام متحدہ کے رپورٹس کو چیلنج کیا۔
دستاویز میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک رپورٹ پر "شدید تشویش" کا اظہار کیا گیا جس میں تصدیق کی گئی کہ غزہ کے کچھ حصوں میں قحط پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور ستمبر کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس تک پھیلنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
انہوں نے "جنگ کے ایک حصے کے طور پر شہریوں کو بھوکا رکھنے کے کسی بھی پالیسی" کی مذمت کی اور "تمام یرغمالیوں کی فوری، باوقار اور غیر مشروط رہائی" کے مطالبے کو دہرایا۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کو امریکہ کی جانب سے چھٹی بار ویٹو کیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل میں ووٹنگ اسوقت ہوئی جب اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ پر اپنے قبضے کو ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے مقرر کردہ 12 ماہ کی ڈیڈ لائن کو نظر انداز کر دیا۔
اسمبلی نے 18 ستمبر 2024 کو 124 ووٹوں کے ساتھ یہ قرارداد منظور کی تھی، جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایک سال کے اندر اپنے "غیر قانونی" قبضے کو ختم کرے۔
یہ قبضہ بین الاقوامی قانون کے تحت ایک مسلسل غیر قانونی عمل ہے۔ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی توثیق کی گئی۔
فلسطین کے اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ اسرائیل نے اپنی فوجیں واپس بلانے کے بجائے "نسل کشی، نسل پرستی، اور نسلی صفائی کے ذریعے فلسطین میں اپنے غیر قانونی قبضے اور موجودگی کو مزید بڑھایا ہے۔"
مشن نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات اقوام متحدہ کی قرار دادیں ، جولائی 2024 کی آئی سی جے کی مشاورتی رائے، اور جنرل اسمبلی کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
آئی سی جے کی رائے نے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور اسے "جتنی جلدی ممکن ہو ختم کرنے" کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ سال کے دوران، اسرائیل نے غزہ میں اپنی نسل کشی کو بڑھا دیا ہے، علاقے کے بڑے حصے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی آبادی کو قحط کی حالت میں دھکیل دیا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں، غیر قانونی صیہونی بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی میں اضافہ ہوا ہے۔
فلسطین کے اقوام متحدہ کے مشن نے کہا کہ یہ صورتحال اسرائیل کی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتی ہے۔
مشن کا کہنا ہے کہ "یہ مسلسل استثنیٰ اوررعایت دینے کا نتیجہ ہے۔"