قطری وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیلی حملے نہ صرف قطر بلکہ کسی بھی ایسے ملک کو نشانہ بنار ہے ہیں جو قیام ِامن کے لیے کام کر رہا ہو، انہوں نے اس ہفتے دوحہ پر حملے کو غزہ میں جنگ بندی کی بات چیت کو سبوتاژ کرنے کی واضح کوشش قرار دیا۔
شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے کہا، "ایسے حملوں کا تسلسل صرف قطر کو نشانہ نہیں بناتا، بلکہ یہ کسی بھی ایسے ملک کو دھمکی دینے کی واضح کوشش ہے جو امن کے قیام کے لیے کام کر رہا ہو، اور یہ اقوام متحدہ پر اعتماد کو کمزور کرتا ہے۔"
انہوں نے انہوں نے اس ہفتے دوحہ میں حماس کے مذاکرات کاروں پر اسرائیل کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا، "یہ حملہ اقوام متحدہ کے رکن ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ یہ حملہ ان ممالک کے مہذب رویے سے بہت دور ہے جو امن پر یقین رکھتے ہیں۔"
یہ حملہ، جس میں حماس مزاحمتی گروپ کے پانچ ارکان اور ایک قطری سیکیورٹی افسر ہلاک ہوئے، اس وقت ہوا جب گروپ ایک امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی کی تجویز پر بات کر رہا تھا۔
شیخ محمد نے کہا کہ یہ حملہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل "طاقت کے ذریعے خطے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے" اور اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے "بنیاد پرست خیالات" پر انحصار کر رہا ہے۔
انہوں نے سوال کیا، "ہم اسرائیلی نمائندوں کی میزبانی کیسے کر سکتے ہیں جب انہوں نے یہ حملہ کیا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسی ریاست کو اس طرح ایک ثالث پر حملہ کرتے ہوئے سنا ہے؟"
مصالحت پر زور
قطری رہنما نے اس بات پر زور دیا کہ دوحہ مصالحت اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے پرعزم ہے، لیکن خبردار کیا کہ وہ اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے اسرائیلی قیادت پر "خون کے پیاسے انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا جو "اپنے اقدامات کے لیے استثنیٰ کا یقین رکھتے ہیں" اور غزہ میں نسل کشی کرتے ہوئے وسیع تر خطے کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن کے لیے فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، غزہ تک انسانی رسائی اور دو ریاستی حل کی ضرورت ہے۔
اسی اجلاس میں اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے اسرائیل کو "ایک باغی حکومت قرار دیا جو معصوم لوگوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے" اور جو خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ پر قحط مسلط کر رہی ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے "تکبر" کوتوڑنے اور اس کے "تباہ کن اقدامات" سے خطے کو بچانے کے لیے "فوری اور مؤثر" کاروائی کرے۔
دوحہ نے 2012 سے واشنگٹن اور تل ابیب کی درخواست پر حماس کے سیاسی دفتر کی میزبانی کی ہے اور مصر کے ساتھ بار بار جنگ بندی کی کوششوں میں ثالثی کی قیادت کی ہے۔
اسرائیلی حملے نے ان کوششوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، لیکن قطر نے ان کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔