اسرائیلی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔
معاہدے کی رُو سے اسرائیل، غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے، سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، غزہ کے کچھ علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا اور یومیہ سینکڑوں امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کی اجازت دے گا۔
اسرائیل کابینہ کی طرف سے معاہدے کی منظوری ، کل بروز جمعرات اسرائیل اور فلسطین تحریکِ مزاحمت 'حماس' کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پانے کے بعد، آج بروز جمعہ دی گئی ہے۔
اسرائیلی حکومت کے جاری کردہ بیان کے مطابق "وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے معاہدے کی منظوری دے دی ہے"۔
اسرائیل کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کابینہ کا اجلاس اسرائیل مسلح افواج کے سربراہ 'ایال زامیر' کی سکیورٹی بریفنگ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور صدر کے داماد جیرڈ کشنر نے نسل کُش نیتن یاہو کے ساتھ مذاکرات مکمل کر کے اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس ، قبل ازیں سکیورٹی کابینہ اجلاس کے بغیر کسی رائے شماری کے ختم ہونے کی وجہ سے، کئی گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہوا ۔
اسرائیلی عوامی نشریاتی ادارے کان نے ایک دستاویز بعنوان "غزہ جنگ کا مکمل خاتمہ" نشر کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے معاہدے کی منظوری دے دی ہے لیکن انتہا پسند وزراء اتمار بن گویر، بیزلیل سموٹریچ، یتزحاق واسرلوف، اور امیچائی ایلیاہو نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
واضح رہے کہ جنگ بندی معاہدہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں چار دن کی بالواسطہ بات چیت کے بعد طے پایا اور جمعرات کی صبح اس کا نفاذ کیا گیا تھا۔ معاہدے میں ترکیہ، مصر، قطر اور امریکہ نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔
منصوبے کے دوسرے مرحلے میں غزہ میں ایک نیا حکومتی نظام قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس حکومتی نظام حماس شامل نہیں ہوگی، فلسطینیوں اور عرب و اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل ایک سیکیورٹی فورس تشکیل دی جائے گی، اور حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے گا۔
عرب اور مسلم ممالک نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسرائیل اور حماس دونوں نے ، قیدیوں کے تبادلے، اسرائیلی فوجیوں کی مخصوص لائنوں تک پس قدمی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر مشتمل تین نکاتی ابتدائی مرحلے کا پابند رہنے کی تصدیق کی ہے ۔
حماس نے کہا ہے کہ پہلے تبادلے میں 20 اسرائیلی قیدیوں کو تقریباً 2,000 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔ ان میں سے 250 فلسطینی عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور زیادہ تر عورتوں اور بچوں پر مشتمل 1,700 قیدی جنگ کے آغاز سے قید ہیں۔ یہ تبادلہ معاہدے کے نفاذ کے 72 گھنٹوں کے اندر متوقع ہے۔
جمعرات کو جاری کردہ بیان میں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور دیگر مذاکرات کاروں نے غزہ میں اسرائیل کی شروع کردہ جنگ ختم کرنے میں مدد کی ہے اور یہ مرحلہ پائیدار امن کی طرف رہنمائی کرے گا۔ ٹرمپ نے زور دیا تھا کہ اسرائیلی قیدی پیر یا منگل تک رہا کر دیئے جائیں گے۔
حماس کے چیف مذاکرات کار خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ فلسطین تحریکِ مزاحمت کو امریکہ، عرب ثالثوں اور ترکیہ کی طرف سے غزّہ میں اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کُشی کے مستقل خاتمے کی ضمانتیں ملی ہیں ۔
دوسری جانب، اسرائیلی انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر نے جمعرات کو خبردار کیا کہ اگر حماس کا مکمل خاتمہ نہ کیا گیا تو ان کی انتہا پسند یہودی پاور پارٹی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کو گرانے کی کوشش کرے گی ۔
امریکی حکام نے کہا کہ 200 افراد پر مشتمل ایک امریکی فوجی ٹیم غزہ جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مشرق وسطیٰ میں تعینات کی جائے گی۔
ایک سینئر اہلکار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر ابتدائی طور پر 200 افراد کے ساتھ میدان میں ہوں گے۔ ان کا کردار نگرانی، مشاہدہ، اور خلاف ورزیوں کو روکنا ہوگا ۔
انہوں نے کہا ہےکہ مصری، قطری، ترک اور ممکنہ طور پر اماراتی فوجی اہلکار بھی اس ٹیم میں شامل ہوں گے۔ ایک دوسرے اہلکار نے کہا ہےکہ "ہمارا، کسی امریکی فوجی کو غزہ میں داخل کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔"