عرب ممالک اور تنظیموں نے مغربی ممالک، بشمول برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور پرتگال کی جانب سے فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
سعودی عرب نے اتوار کے روز اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ "ان دوست ممالک کی امن کے راستے کی حمایت اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے حقیقی عزم کی تصدیق کرتا ہے۔"
کویت نے وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اس تسلیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ "خطے میں امن کے امکانات کو بڑھانے اور دو ریاستی حل کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی حمایت میں مددگار ہوگا۔"
وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ دیگر تمام ممالک کو بھی ایسا ہی قدم اٹھانا چاہیے تاکہ خطے میں سلامتی، استحکام، اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔
عمان نے بھی ان اعلانات کا خیرمقدم کیا اور اسے دو ریاستی حل اور علاقائی سلامتی و امن کے حوالے سے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا۔
عمانی وزارت خارجہ نے دیگر ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں تاکہ "فلسطینی عوام کے اس جائز حق کی ضمانت دی جا سکے کہ وہ 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر اپنی آزاد ریاست قائم کریں۔"
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے نیویارک میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز سے ملاقات کے دوران آسٹریلیا کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔
اردنی وزارت خارجہ نے اس بات کی توثیق کی کہ برطانیہ، کینیڈا، اور آسٹریلیا کی جانب سے سرکاری تسلیم "بین الاقوامی خواہش کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ قبضے کا خاتمہ ہو اور فلسطینی عوام کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر اپنی ریاست قائم کر نے کا ناقابل تنسیخ حق دیا جائے ۔"
خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) نے ان اعلانات کو "انصاف اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کے حصول کی طرف ایک اہم تاریخی پیش رفت" قرار دیا۔
اس سے قبل، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور پرتگال نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے فلسطینی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کیا۔
اقوام متحدہ کے تقریباً تین چوتھائی رکن ممالک پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، جن میں آئرلینڈ، اسپین، اور ناروے نے گزشتہ سال اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا۔