یورپی یونین نے تصدیق کی ہے کہ اس نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے وسیع پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی ہیں، یہ اقدام اقوام متحدہ کی جانب سے اپنی جامع پابندیاں بحال کرنے کے بعد اٹھیا گیا ۔
اقوام متحدہ نے یہ قدم اس ہفتے کے آخر میں اٹھایا جب مغربی طاقتوں نے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت نام نہاد 'اسنیپ بیک' میکانزم کو متحرک کیا۔
27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کی جانب سے دوبارہ نافذ کی گئی پابندیوں میں اقوام متحدہ کے وہ اقدامات شامل ہیں جو تہران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل سرگرمیوں سے متعلق معاملات پر پابندی عائد کرتے ہیں۔
تاہم، یہ پابندیاں مالیاتی اقدامات تک بھی وسیع ہیں، جن میں ایران کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کرنا شامل ہے۔
تہران نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کو 'غیر منصفانہ' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
پابندیاں دوبارہ نافذ ہونے کے باوجود، مغربی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکرات کے لیے راستے کھلے رہیں گے۔
سفارت کاری کے دروازے کھلے ہیں
یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس نے اتوار کے روز کہا کہ پابندیوں کا دوبارہ نفاذ 'سفارت کاری کا اختتام نہیں ہونا چاہیے'۔
ایران نے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی تردید کی ہے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تاہم، ایران نے ہفتے کے روز لندن، پیرس اور برلن سے اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا اور مغربی ممالک کے لیے 'سنگین نتائج' کی وارننگ دی۔
روس اور چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پابندیوں کے اسنیپ بیک کو مؤخر کرنے کی ناکام کوشش کی، اور خبردار کیا کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ ان کی پیش کردہ قرارداد کو 15 رکنی کونسل کے صرف چار ووٹ ملے۔