صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی کے حوالے سے روسی خبر رساں ایجنسی TASS نے جمعہ کے روز کریملن کے معاون یوری اوشاکوف کے بارے میں بیانات جاری کئے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ روس بارہا کہ چُکا ہے کہ وہ ،یوکرین جنگ ختم کرنے کی کوششوں پر، ٹرمپ کا شکر گزار ہے۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو شائع ہونے والے بیان میں کہا تھاکہ اگر ٹرمپ جنگ بندی کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیف انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کرے گا، جسے وہ کھلے عام حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ نوبل کو ایک انتہائی معتبر لیکن غیر متوقع انعام سمجھا جاتا ہے۔ نارویجن نوبل کمیٹی جمعہ کے روز اعلان کرے گی کہ نوبل امن انعام کس کو دیا جائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیٹی عام طور پر امن کی پائیداری، بین الاقوامی بھائی چارے کے فروغ اور ان مقاصد کو مضبوط کرنے والے اداروں کے خاموش کام پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔
اعلان سے پہلے اس بات پر مسلسل قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انعام ٹرمپ کو دیا جا سکتا ہے کہ جس کی امریکی صدر نے خود بھی حمایت کی ہے۔ تاہم، طویل عرصے سے نوبل انعام کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے امکانات کم ہیں باوجود یکہ انہوں نے کئی اہم خارجہ پالیسی اقدامات کا سہرا اپنے سر لیا ہے۔
امن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو کے مطابق ممکنہ فاتحین میں، سوڈان کے ایمرجنسی ریسپانس رومز شامل ہیں، جو ایک کمیونٹی پر مبنی نیٹ ورک ہے اور ملک میں خانہ جنگی کے دوران انسانی امداد کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے، بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نامی امریکی تنظیم جو آزادی صحافت کی حامی ہے اور ڈیوٹی پر مارے جانے والے صحافیوں کی فہرست مرتب کرتی ہے، شامل ہیں۔
گزشتہ سال کا انعام جاپان پر ایٹمی بمباری کے متاثرین کی ایک عوامی تحریک 'نیہون ہیدانکیو' کو دیا گیا تھا۔یہ تحریک کئی دہائیوں سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف ایک ممانعت کو برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
امن انعام واحد سالانہ نوبل انعام ہے جو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں دیا جاتا ہے۔
دیگر چار انعامات پہلے ہی اس ہفتے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں دیے جا چکے ہیں۔ پیر کو طب کے شعبے میں، منگل کو طبیعیات میں، بدھ کو کیمسٹری میں اور جمعرات کو ادب میں نوبل انعام اپنے حقداروں تک پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادیات کے انعام کا اعلان پیر کو کیا جائے گا۔










