اقوام متحدہ جنرل کمیٹی اجلاس کے دوران مائیکروفون بار بار بند ہوتے رہے۔ یہ واقعات غزہ میں نسل کشی اور فلسطینی ریاست کے موضوع پر حساس بحث کے دوران پیش آئے۔
آج بروز منگل انڈونیشیا کے صدر پروبواو سبیانتو کی تقریر ایک ایسے وقت پر منقطع ہو گئی جب وہ غزہ میں امن فوج بھیجنے کے منصوبے پر بات کر رہے تھے۔ ان کا مائیکروفون خاموش ہو گیا جس کی وجہ سے مترجم کو بات جاری رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ چند سیکنڈکے بعد آڈیو بحال ہو گئی لیکن یہ خلل ایک اہم لمحے پر آیا تھا۔
اس سے چند گھنٹے قبل ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو بھی ، اسمبلی سے خطاب کے دوران، اسی طرح کی خرابی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ خطاب میں انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کشی کی مذّمت کی اور فلسطینی ریاست کو فوری طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن مائیکروفون بند ہو گیا۔ اگرچہ مختصر وقت میں یہ خرابی دُور ہو گئی لیکن اس سے ہال میں کچھ دیر کے لیے الجھن پیدا ہوئی۔
سب سے ڈرامائی خرابی پیر کے روز پیش آئی جب کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے فلسطین کی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ " کینیڈا، فلسطین کو بحیثیت ریاست تسلیم کرتا ہے"۔ ان کے اس اعلان پر مندوبین نے تالیاں بجائیں، لیکن چند لمحوں بعد ان کا مائیکروفون اچانک بند ہو گیا۔
تالیاں بجنے کے باوجود، آواز کی اچانک خرابی نے بعض مبصرین کے درمیان خرابی کے وقت کے بارے میں قیاس آرائیاں پیدا کر دیں۔
اقوام متحدہ کے تکنیکی عملے نے کہا ہے کہ یہ خرابیاں جنرل اسمبلی ہال کے آلات میں مسائل کی وجہ سے ہوئی ہیں ۔حکام نے اس بات پر زور دیا ہےکہ "جان بوجھ کر مداخلت" کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
مائیکروفون کی خرابیوں سے بارہا منقطع ہونے والے اس اجلاس کا ایجنڈہ فلسطین اور غزّہ تھا۔اجلاس میں فرانس، بیلجیم، مالٹا، لکسمبرگ، اور کینیڈا سمیت کثیر تعداد ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا۔ ان پیش رفتوں کو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اجلاس میں ترکیہ، انڈونیشیا، اور دیگر ممالک کے رہنماؤں نے غزہ میں نسل کشی کو روکنے، انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے اور ضرورت پڑنے پر امن فوج تعینات کرنے کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔پروبواو نے کہا ہےکہ اقوام متحدہ امن مشن کے موضوع پر اتفاق ہونے کی صورت میں انڈونیشیا اس مشن کو فوج فراہم کرنے پر تیار ہے ۔
مائیکروفون کی خرابیوں کے باوجود، پیغامات واضح طور پر پہنچے۔ جیسا کہ ایک مندوب نے کارنی کے بیان کے بعد کہا کہ "تسلیم کیا جانا بلند اور واضح سنا گیا، چاہے مائیکروفون نہ بھی ہو۔"