امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات کو واشنگٹن میں پہلی بار وسطی ایشیاء کے پانچ سربراہان کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات، ٹرمپ کے روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ اجلاسوں سے چند ماہ بعد کی جا رہی ہے۔
روس کے یوکرین پر حملوں کے بعد سے روایتی روسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہونے اور چین کے بھی علاقے میں ایک اہم کردار کی شکل اختیار کرنے کے بعد وسطی ایشیاء کا وسائل سے مالامال خطّہ مغربی دنیا کا بھی مرکزِ توجہ بن گیا ہے۔
اثر و رسوخ کی دوڑ
یوکرین جنگ کے بعد قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے، خاص طور پر 'C5+1' فارمیٹ کے تحت، دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں میں اضافہ کیا ہے۔
واشنگٹن اور یورپی یونین نے ، 1991 میں سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والے، ان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو گہرا کرنا شروع کر دیا ہے۔ 2023 میں پہلا امریکہ۔وسطی ایشیا سربراہی اجلاس منعقد کیا گیاتھا۔
رواں سال میں یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن، روس کےصدر ولادیمیر پوتن اور چین کے صدر شی جن پنگ نے پانچ وسطی ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ سربراہی اجلاس کے لیے اس خطے کا دورہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ متعدد علاقائی تنازعات کے خاتمے نے وسطی ایشیائی ممالک کو سفارت کاری میں ایک متحد محاذ کی تشکیل کے قابل بنایا ہے۔
قزاقستان، کرغزستان اور تاجکستان کے ساتھ سرحدی ہمسایہ ملک 'چین' نے خود کو ایک اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر پیش کیااور بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ سابقہ سوویت جمہوریتیں اگرچہ اب بھی ماسکو کو ایک اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر دیکھتی ہیں لیکن روس کا، ہمسایہ ملک یوکرین پر، حملہ انہیں اندیشوں میں مبتلا کر رہاہے۔
مغرب نے 2000 کے اوائل میں، افغانستان میں آپریشن کے دوران وسطی ایشیاءکے بعض اڈّوں کا استعمال کیا تھا اور اس دوران اس خطے کے ساتھ کچھ تعلقات بھی قائم کیے تھے ۔
وسائل سے مالامال خطہ
امریکہ اور یورپی یونین اپنی نایاب معدنیات کی رسد کو متنوع بنانے اور بیجنگ پر انحصار کم کرنے کی کوششوں میں ہیں اور اسی وجہ سے وسطی ایشیاء کے وسیع لیکن ابھی تک زیادہ تر غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔
نایاب معدنیات کے علاوہ قزاقستان دنیا کا سب سے بڑا یورینیم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ازبکستان کے پاس سونے کے وسیع ذخائر ہیں اور ترکمانستان گیس سے مالامال ہے۔ کوہستانی جغرافیے والے ملک کرغزستان اور تاجکستان بھی نئے معدنی ذخائر دریافت کر رہے ہیں۔
روس، سوویت دور کے بنیادی ڈھانچے کے طفیل، اس علاقے کو ہائیڈروکاربن فراہم کرکے اور جوہری پلانٹوں کی تعمیر کر کے آج بھی خطے کے شعبہ توانائی میں اپنی حیثیت مستحکم رکھے ہوئےہے۔
وسطی ایشیا کا خطّہ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ خطوں میں سے ایک ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ تمام پانچ ممالک پانی کی قلت سے بھی نبرد آزما ہیں۔
پُر مسائل نقل و حمل
لیکن ان غریب ریاستوں میں، دُور دراز اور ضروری بنیادی ڈھانچے سے محروم علاقوں میں واقع ، وسیع معدنی ذخائر کا استعمال نہایت مشکل ہے ۔
یورپی یونین کے برابر رقبے کے باوجود صرف 75 ملین آبادی پر مشتمل وسطی ایشیا چٹانوں میں گھِرا ہوا ہے اور ریگستانی و کوہستانی جغرافیائی شرائط کا حامل ہے۔ شمال میں روس، مشرق میں چین اور جنوب میں ایران اور افغانستان جیسے مغرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات والے ممالک کا ہمسایہ ہے۔
شاہراہِ ریشم پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ خطہ صدیوں سے بحیثیت تجارتی مرکز کے اپنی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پانچ وسطی ایشیائی ممالک نے ماسکو پر انحصار سے رہائی کے لیے کئی شراکت داریاں بنائی ہیں۔
بیجنگ اور برسلز دونوں، یورپ سے شروع ہو کر براستہ کاکیشیا وسطی ایشیاء تک پورے بحیرہ کیسپین کے ساتھ ساتھ، ایک رسل رسائل راستے کی حمایت کرتے ہیں ۔تاہم روس کو راستے کی گزرگاہ سے باہر رکھا گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روس۔یوکرین جنگ سے مختصر مدّت قبل 2021 سے 2024 کے درمیانی سالوں میں اس راستے سے سامان کی نقل و حمل میں 660 فیصد اضافہ ہوا ہے۔










