نیو یارک کے عوام نے، ایک نوجوان مسلمان اور ڈیموکریٹک سوشلسٹ، 'زہران ممدانی' کو میئر منتخب کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ، صدر ٹرمپ کےدوسرے ہنگامہ خیز دورِ صدارت میں منعقدہ پہلے مقامی انتخابات کی شکل میں، امریکی ووٹروں کی طرف سے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔
ممدانی، سابق ریاستی گورنر 'اینڈریو کومو' کو شکست دے کر میئر منتخب ہوئے ہیں۔ کومو پرائمری انتخابات میں شکست کے بعد بحیثیت آزاد امیدوار انتخابات لڑ رہے تھے۔ریپبلکن امیدوار اور گارڈین اینجلس کے بانی 'کرٹس سلیوا 'تیسرے نمبر پر رہے ہیں۔
جیت کے اعلان کے بعد ممدانی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ 'اگلا اور آخری مقام سٹی ہال ہے'۔
34 سالہ ممدانی خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ قبل ازیں تقریباً غیر معروف ممدانی نے ڈیموکریٹک نامزدگی حاصل کرنے کے بعد حیران کن کامیابی حاصل کی ۔انہوں نے نیویارک کے عام شہریوں کے لیے مصارفِ زندگی کم کرنے پر توجہ مرکوز کی اور اپنی غیر رسمی ذاتی طرز اور ووٹروں کے ساتھ گلیوں میں بات چیت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر مقبول کلپس کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کی ہے۔
ممدانی، یوگنڈا میں بھارتی والدین کے ہاں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر سے نیویارک میں مقیم ہیں۔ اس کامیابی سے وہ نیویارک شہر کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی میئر بن گئے ہیں۔
ممدانی نے یہ کامیابی ،ڈونلڈ ٹرمپ، کاروباری اشرافیہ اور قدامت پسند ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان کی پالیسیوں اور مسلم ورثے پر شدید حملوں کے باوجود حاصل کی ہے۔ٹرمپ نے کھلے عام نسل پرستی کا کارڈ کھیلتے ہوئے ممدانی کو 'یہودی دشمن' قرار دیا ہے۔
ریپبلکن صدر نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا ہے کہ "کسی یہودی کا، تصدیق شدہ 'یہودی دشمن' ممدانی کو ووٹ دینا حماقت ہے"۔
بل ایکمین جیسی معروف کاروباری شخصیات نے بھی ممدانی پر تنقید کی اور ان کے مخالفین کو مالی مدد فراہم کی ہے۔ بشمول نیویارک پوسٹ قدامت پسند ذرائع ابلاغ نے بھی ان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔
ٹرمپ کا ردعمل
نیویارک کے میئر کے لئے منعقدہ ان انتخابات کی توجہ مصارفِ زندگی ، جرائم کی شرح اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات جیسے موضوعات پر مرکوز رہی۔ ممدانی نے موزوں مالیت والی شرائطِ زندگی کو اپنا انتخابی منشور بنایا۔ان کے ایجنڈے میں مکانات کے کرایوں کو مستحکم رکھنا، شہریوں کومفت بس سروس سہولت دینا،نگہداشتِ اطفال خدمات فراہم کرنا اور کریانہ و سبزی فروش مارکیٹوں کوشہری انتظامیہ کے زیر انتظام رکھنا شامل ہیں۔
نیویارک کے امیر ترین افراد پر ٹیکس بڑھانا اور کارپوریشن ٹیکس میں اضافہ بھی ان کی پالیسیوں میں شامل ہے۔ تاہم شہر کے مالیاتی حلقے شہر میں رقابت کی فضاء کے متاثر ہونے کا خدشہ محسوس کر رہے ہیں۔
ممدانی کی غیر متوقع کامیابی نے اس بحث کو بھی شدّت عطا کی ہے کہ آیا ڈیموکریٹک پارٹی کا مستقبل مرکزیت پسند ہو گا یا پھر بائیں بازو کے رجحان والا۔
دریں اثنا، ورجینیا اور نیو جرسی کے گورنر انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابیاں اگلے سال متوقع درمیانی مدّت کے انتخابات کے لئے ووٹروں کے سیاسی جھکاو کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے نیویارک سٹی، نیو جرسی اور ورجینیا میں ریپبلکنوں کی شکست کو،بیلٹ پیپر پر اپنے نام کی عدم موجودگی اور وفاقی حکومت کے شٹ ڈاؤن سے منسوب کیا ہے۔
کومو کے انتخابی نتائج کی تقریب میں کچھ شرکاء کے درمیان مایوسی کا ماحول تھااور انہوں نے ٹرمپ کے فوری طور پر شہر میں نیشنل گارڈ متعین کرنے کی پیشین گوئی کی ہے۔بعض شرکاء نے سلیوا کو مرکزی دائیں بازو کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
نیو جرسی میں، ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار مائیکی شیریل نے ٹرمپ کی حمایت یافتہ کاروباری شخصیت کو شکست دی اور ورجینیا میں ڈیموکریٹک امیدوار ابیگیل اسپینبرگر نے گورنر ہاوس ریپبلکنوں سے واپس لے لیا ہے۔
انتخابات میں دونوں اطراف نے اپنے مضبوط حامیوں کو میدان میں اتارا ۔سابق صدر باراک اوباما نے اسپینبرگر اور شیریل کے لئے ووٹ حاصل کئے۔ ان کی کامیابیوں کے بعد جاری کردہ بیان میں اوباما نے کہا ہے کہ "ابھی کرنے کو بہت کچھ ہے لیکن ان کامیابیوں سے مستقبل ذرا ذیادہ روشن ہو گیا ہے"۔



