صدرِ یوکرین وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے اور جنگی قیدیوں کے تبادلے کی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے مذاکرات کو تیز کر سکنے کے لیے ترکیہ کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
منگل کو ٹیلیگرام پر شیئر کیے گئے ایک بیان میں زیلنسکی نے کہا کہ وہ بدھ کو ملاقاتیں کریں گے، تاہم انہوں نے ترکیہ کے شہر یا حکام کی نشاندہی نہیں کی جن سے وہ ملاقاتیں کریں گے۔
زیلنسکی نے کہا: ۔ ہم مذاکراتی عمل میں تیزی لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور ایسے حل تیار کیے ہیں جو ہم اپنے شراکت داروں کو پیش کریں گے۔ جنگ کو ختم کرنا یوکرین کی اولین ترجیح ہے۔ ہم تبادلوں اور جنگی قیدیوں کی واپسی کے عمل کو بحال کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے دوروں کے بعد اپنی پارٹی کے حکام کے ساتھ صلاح مشورے کے ساتھ 'چند ضروری قانون سازی اقدامات اور فوری بنیادی فیصلے' پیش کریں گے جو ہماری ریاست کو درکار ہیں۔
ادھر امریکی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ توقع ہے کہ امریکی خصوصی ایلچی سٹیون وٹکوف بھی زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شامل ہونے کے لیے بدھ کو ترکیہ پہنچیں گے۔
روس اس ہفتے کی بات چیت میں حصہ نہیں لے گا — کریملن
دریں اثنا، کریملن نے منگل کو کہا ہے کہ روس اس ہفتے ترکیہ میں کسی بھی ملاقات میں حصہ نہیں لے گا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے کہا: ' کل ترکیہ میں کوئی روسی نمائندہ نہیں ہوگا۔ فی الحال یہ رابطے روسی شرکت کے بغیر ہو رہے ہیں۔'
پیسکوف نے مزید کہا کہ صدر ولادیمیرپوتن ترکیہ یا امریکہ کے ذریعے مذاکرات کے نتائج سے آگاہ کیے جانے کے لیے تیار ہیں۔
رویٹرز نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ دمیتریف کے ایک قریبی ذرائع نے بتایا ہےکہ 24 تا 26 اکتوبر کو امریکہ میں ایک قبل ازیں ملاقات کے دوران انہوں نے امریکی ایلچی وٹکوف کے ساتھ 'بہت نتیجہ خیز گفتگو' کی تھی۔
ترکیہ، جو نیٹو کا رکن ہے اور کیف اور ماسکو دونوں کے ساتھ بات چیت برقرار رکھتا ہے، نے 2022 سے سہولت کار کا اہم کردار ادا کیا ہے، متعدد دورِ مذاکرات کی میزبانی کی ہے جن میں وہ دور بھی شامل ہیں جن کے نتیجے میں تاریخی بحیرہ اسود اناج اقدام سامنے آیا تھا ، جس نے یوکرین کو روس کی جانب سے بند کردہ تین بندرگاہوں سے اناج بھیجنے کی اجازت دی تھی۔
انقرہ کا تازہ سفارتی دورہ اس وقت ہو رہا ہے جب ترکیہ خود کو متحارب فریقوں کے درمیان ایک اہم ثالث کے طور پر جگہ دینے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ وسیع تر مذاکراتی عمل ابھی بھی نازک ہے۔












