امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے 'بہت مایوس' ہیں کیونکہ پوٹن اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ملاقات کے منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔
منگل کے روز اسکاٹ جیننگز ریڈیو شو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ میں بہت مایوس ہوں۔
یہ تبصرہ اگست میں ٹرمپ کی دونوں رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا ہے ۔
ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ پوٹن اور زیلنسکی کی ملاقات کے بعد سہ فریقی اجلاس ہوگا جس میں وہ بھی شامل ہوں گے۔
لیکن کریملن نے ان امکانات کو نظر انداز کر دیا ہے اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ کے روز اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مذاکرات صرف اسی صورت میں جاری رہ سکتے ہیں جب "نئے علاقائی حقائق" کو تسلیم کیا جائے اور قانونی طور پر باضابطہ شکل دی جائے۔
لاوروف نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی تصفیے میں دونوں فریقوں کے لئے سلامتی کی ضمانت اور یوکرین کی "غیر جانبدار، غیر وابستہ اور غیر جوہری حیثیت" کو یقینی بنانا شامل ہونا چاہئے۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر یہ ملاقات کامیاب نہ ہوئی تو روس کو خمیازے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
انہوں نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ اگر پیش رفت نہیں کی گئی تو ماسکو کو "بڑے پیمانے پر پابندیوں یا بھاری محصولات یا دونوں" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے پیر کے روز کہا کہ تمام متبادل میز پر موجود ہیں ۔
بیسنٹ نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس نے گھناؤنے انداز میں بمباری کی مہم میں اضافہ کیا ہے ،صدر ٹرمپ کے ساتھ تمام متبادل زیر غور ہیں اور ہم اس ہفتے ان کا بغور جائزہ لیں گے۔
زیلنسکی نے ماسکو پر اجلاس میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ روس کا اصرار ہے کہ ایجنڈا تاحال تیار نہیں ہے۔
لاوروف نے کہا کہ روس اور یوکرین کے وفود کے سربراہان براہ راست رابطے میں ہیں اور ہمیں امید ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے۔













