اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ زیرِ محاصرہ غزہ کے تین اسٹریٹجک مقامات پر طویل المدتی فوجی موجودگی برقرار رکھے گا اور یہ فوجی موجودگی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے تحت مرحلہ وار فوجی انخلا کے بعد بھی جاری رہے گی۔
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان کی، نامعلوم ذرائع کے حوالے سے شائع کردہ، خبر کے مطابق اسرائیلی حکام نےزیرِ محاصرہ غزّہ کے تین اسٹریٹجک مقامات پر فوجی موجودگی کے منصوبے کی تفصیلات واشنگٹن کو فراہم کر دی ہیں۔منصوبے میں غزہ کی سرحدوں کے اندر ایک بفر زون میں پوزیشنیں برقرار رکھنا شامل ہے۔ غزہ سرحدوں کی اندر اس بفرزون کی پیمائش کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن مصری سرحد کے ساتھ فلاڈلفی راہداری اور غزہ شہر کے محلّے'شجاعیہ' کے مشرق میں تل المنطار پہاڑی المعروف 'تل السبعین' بفر زون میں شامل ہیں۔
کان کے مطابق تل المنطار پہاڑی سطح سمندر سے 70 میٹر بلند ہے اور اسرائیل کو غزہ شہر اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ سمیت شمالی غزہ کے بڑے حصوں پر وسیع بصری اور فائر کنٹرول فراہم کرتی ہے ۔
نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مقامات کو اسرائیل نے میدان میں برتری اور نگرانی کی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے لیے 'انتہائی اہم' قرار دیا ہےاور واشنگٹن بھی 'اسرائیل کی ضرورت کو سمجھتا ہے' ۔
خبر کے مطابق منصوبے کی رُو سے اسرائیلی فوج کے جنگی علاقوں سے انخلا کا آغاز تمام قیدیوں کی بازیابی کے بعد ہو گا۔
ابتدائی طور پر فوج غزہ کے اندر پوری 'زرد لائن' کے ساتھ ساتھ عارضی طور پر دوبارہ تعینات ہوگی اور بعد میں 'سرخ لائن' تک پیچھے ہٹ جائے گی۔ اس پورے مرحلے میں بیک وقت حفاظتی انتظام کی خاطر امریکی کمانڈمیں غیر ملکی فوجیں بھی متعین کی جائیں گی ۔
نشریاتی ادارے کے مطابق آخری مرحلے میں، اسرائیلی فوجیں غزہ کی سرحدوں کے ساتھ تعینات ہوں گی اور'مستقبل کے سکیورٹی خطرات کو روکنے کے لئے' فلاڈلفی راہداری اور تل المنطار پہاڑی پر کنٹرول برقرار رکھیں گی ۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ
مصر نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ ، قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات پر بات چیت کی خاطر،پیر کے روز اسرائیل اور حماس کے وفود کی میزبانی کرے گا ۔
ٹرمپ نے جمعہ کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر لکھا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس 'پائیدار امن کے لیے تیار ہے' اور اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ 'غزہ پر بمباری فوراً روک دے' تاکہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
تاہم ہفتے کے روز جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ حماس کی منظوری کی صورت میں جنگ بندی 'فوری طور پر نافذالعمل ' ہو جائے گی۔
29 ستمبر کو، ٹرمپ نے اپنا 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا جو اسرائیل کی منظوری کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور حماس کو غیر مسلح کرنے پر مشتمل ہے۔
تل ابیب کے اندازے کے مطابق غزہ میں 48 اسرائیلی قیدی موجود ہیں، جن میں سے 20 زندہ ہیں۔ دوسری جانب، فلسطینی اور اسرائیلی حقوقِ انسانی گروپوں کے مطابق، اسرائیل کے پاس تقریباً 11,100 فلسطینی قیدی ہیں، جن میں سے کئی کو تشدد، بھوک اور طبی غفلت کا سامنا ہے ۔
اسرائیل اکتوبر 2023 سے تاحال محصور غزہ میں، زیادہ تر عورتوں اور بچوں پر مشتمل، 67,000 سے زائد فلسطینیوں کوقتل کر چُکا ہے ۔ اسرائیل انسانی قتل عام کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی قتل عام بھی جاری رکھے ہوئے ہے اور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر چُکا اور اس کی تقریباً پوری آبادی کو بے گھر کر چُکا ہے۔