امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ترکیہ کے کردار کو سراہا ہے اور صدر رجب طیب اردوان کو 'شاندار' قرار دیا ہے اور خطے میں انقرہ کے اثر و رسوخ پر زور دیا ہے۔
ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی پر بین الاقوامی امن کانفرنس سے قبل مشرق وسطیٰ کے راستے میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ترکیہ بھی شاندار تھا، صدر ایردوان شاندار تھے۔ انہوں نے واقعی بہت مدد کی ، کیونکہ وہ بہت قابل احترام ہیں۔ ان کے پاس ایک بہت طاقتور قوم ہے۔ ان کے پاس ایک بہت، بہت طاقتور فوج ہے. اور انہوں نے بہت مدد کی،
صدر نے جنگ بندی کے مذاکرات میں کئی ممالک کا بھی ذکر کیا جن میں متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا اور اردن شامل ہیں۔
خاص دورے کے آغاز پر ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں خدشات کو بھی مسترد کردیا ۔
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں یقین ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے درمیان تنازع اور جنگ ختم ہو چکی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جنگ بندی برقرار رہے گی تو ، انہوں نے مزید کہا: "مجھے لگتا ہے کہ یہ برقرار رہے گی، مجھے لگتا ہے کہ لوگ اس سے تھک چکے ہیں۔ صدیاں گزر چکی ہیں۔"
ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب وہ اسرائیل روانہ ہوئے تھے ، جہاں توقع کی جارہی ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کریں گے اور کنیسٹ یا پارلیمان سے خطاب کریں گے۔
بعد ازاں وہ مصر کے شہر شرم الشیخ جائیں گے جہاں وہ پیر کو شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس میں عالمی رہنماؤں کے ساتھ شامل ہوں گے۔
قاہرہ کے مطابق، ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی مشترکہ صدارت میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس کا مقصد "غزہ میں جنگ کا خاتمہ، مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام لانے کی کوششوں کو بڑھانا اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرنا ہے"۔
ترک شعبہ صدارتی اطلاعات کے صدر برہان الدین دُوران نے اتوار کے روز سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ صدر ایردوان، سیسی اور ٹرمپ کی دعوت پر سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔