چین نے کہا ہے کہ "ہم، امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ میں "آخر تک لڑنے" کے لیے تیار ہیں۔
نام کو پوشیدہ رکھتے ہوئے چین وزارت تجارت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ "محصولات اور تجارتی جنگوں کے معاملے پر چین کا مؤقف ہمیشہ نپا تُلا رہا ہے۔ اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم آخر تک لڑیں گے لیکن اگر آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں"۔
یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر نئے محصولات اور برآمداتی پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد جاری کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے چینی درآمدات پر اضافی 100 فیصد محصول عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ اعلان بیجنگ کی جانب سے، ہائی ٹیک اور فوجی صنعتوں کے لیے اہمیت کی حامل، نایاب معدنیات کی برآمدات پر تازہ پابندیوں کے جواب میں تھا۔ ٹرمپ نے چین کے اقدامات کو "بہت معاندانہ" اور "حیران کن" قرار دیا ہے۔
بیجنگ نے برآمداتی پابندیوں کا دفاع کیا اور کہا ہےکہ یہ پابندیاں چینی قانون کی رُو سے "جائز اقدامات" ہیں اور قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر اٹھائے گئے ہیں۔
وزارتِ تجارت نے کہا ہے کہ "بحیثیت ایک ذمہ دار اور بڑی طاقت کے 'چین' نے ہمیشہ اپنی قومی سلامتی اور بین الاقوامی اجتماعی سلامتی کا مستقل مزاجی اور مضبوطی سے تحفظ کیا ہے۔"
یہ تازہ ترین کشیدگی دونوں ممالک کی طرف سے، ایک دوسرے کے جہازوں پر، بندرگاہی فیس عائد کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔اس طرح تجارتی جنگ میں ایک نیا محاذ کھل گیا ہے۔
چین نے کہا ہےکہ منگل سے امریکی زیرِ ملکیت، امریکی ساختہ اور امریکی پرچم بردار تمام بحری جہازوں سے نئی فیسیں وصول کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ ایسےجہازوں کو جو چینی ساختہ ہیں یا مرّمت کے لیے چینی بندرگاہوں میں داخل ہو رہے ہیں ان فیسوں سے بَری رکھا گیا ہے۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق یہ فیسیں پہلی بندرگاہ پر داخلے کے وقت یا سالانہ پانچ سفروں پر لاگو ہوں گی اور 17 اپریل سے دَوری شکل میں لاگو ہونا شروع ہو جائیں گی۔
اسی طرح امریکہ نے بھی چین سے منسلک جہازوں سے بندرگاہی فیس وصول کرنا شروع کر دی ہے۔ واشنگٹن نے اس اقدام کو عالمی جہاز سازی میں چین کی بالادستی کم کرنے اور امریکی جہاز سازی کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعہ کو جاری کردہ اعلان میں کہا تھا کہ ہم،یکم نومبر سے "کسی بھی اور تمام اہم سافٹ ویئر" پر برآمداتی کنٹرول نافذ کریں گے اور اگر بیجنگ نے نایاب معدنیات کی پابندیاں ختم نہ کیں تو مزید اقدامات کئے جائیں گے۔
اس تجارتی تنازعے نےعالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور جنوبی کوریا میں ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ممکنہ ملاقات پر بھی سایہ ڈال دیا ہے۔