حزب اللہ پر دباؤ: کمزوری یا حکمت عملی؟
سیاست
6 منٹ پڑھنے
حزب اللہ پر دباؤ: کمزوری یا حکمت عملی؟لبنان کی تعمیر ِ نو کی کوششوں کے دوران یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا حزب اللہ غیر مسلح ہو گی یا نہیں؟
Lebanese voices calling on Hezbollah to relinquish its weapons have grown louder in recent years, especially after the party's involvement in foreign conflicts in Syria, Yemen, and Iraq. / AFP
30 مئی 2025

ایسے حالات میں کہ جب لبنان، اسرائیل کے ساتھ ایک سالہ تباہ کن جنگ کے بعد  تعمیر ِ نوکی کوششوں میں ہے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا سوال کہیں  زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

ایک نئے صدر کی تقرری اور طویل عرصے سے التوا کے شکار بلدیاتی انتخابات نے سیاسی استحکام کی امید کو دوبارہ تازہ کر دیا ہے۔لیکن بین الاقوامی عطیہ دہندگان ایک شرط کو بتدریج زیادہ کھُلے الفاظ میں بیان کرنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ یہ کہ جب تک  لبنان حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کر دیتا  اس وقت تک اسے اپنی تعمیر نو کے لئے خاطر خواہ  امداد نہیں ملے گی۔

ایران کی حمایت یافتہ یہ عسکری و سیاسی تنظیم کئی  دہائیوں سے لبنان کے،جنگ اور امن سے متعلقہ،  فیصلوں پر گہرا اثر و رسوخ  رکھے ہوئے  ہے۔ تاہم دورِ حاضر میں  حزب اللہ ایک نہایت  کمزور اور نازک حالت سے گزر رہی  ہے۔ اسرائیلی حملے دریائے لیتانی کے جنوب میں تنظیم کے اسلحہ ڈپووں کو تباہ کر رہے ہیں، اور لبنانی فوج نے ان علاقوں تک دوبارہ رسائی حاصل کر لی ہے جہاں پہلے حزب اللہ کا مضبوط قبضہ تھا۔

لبنان میں حزب اللہ سے ہتھیار پھینکنے کے مطالبات حالیہ برسوں میں زیادہ زور پکڑ گئے ہیں، خاص طور پر تنظیم کی شام، یمن اور عراق جیسےغیر ملکی تنازعات میں شمولیت کے بعد ان مطالبات میں شدّت آ گئی  ہے۔ بہت سے لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حزب اللہ ان دیگر ملیشیا گروپوں کے نقش قدم پر چلے جو 1990 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد غیر مسلح ہو گئے تھے۔

لبنانی فورسز پارٹی کے میڈیا سربراہ چارلس جبور کا کہنا ہے کہ " حزب اللہ کو لگنے والی یہ ضربیں ایک بڑے تبدیلی کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ پہلے یہ دلیل دیتی تھی کہ اس کے ہتھیار اسرائیل کو روکنے کے لیے ہیں، لیکن اب ہم اس کے برعکس دیکھ رہے ہیں  اس کی موجودگی نے اسرائیلی حملوں کو مزید شدیدکر دیا ہے"۔

اکتوبر 2023 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے جنوبی علاقوں کو تباہ کر دیا، جس سے لبنان کے رہائشی اسٹاک کا تقریباً 40 فیصدیعنی ایک لاکھ 63 ہزار سے زائد مکانات تا تو مکمل تباہ ہو گئے یا پھر انہیں شدید  نقصان  پہنچا تھا۔ لبنانی حکام کے مطابق حزب اللہ۔ اسرائیل جھڑپوں میں ملکی انفراسٹرکچر کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔ 2006 کی جنگ کے برعکس، اس بار غیر ملکی امداد سست روی کا شکار ہو گئی ہے۔ کئی مغربی ملکوں، بشمول امریکہ، نے امداد کو حزب اللہ کے غیر مسلح ہونے سے مشروط کر دیا ہے۔

جبور نے مزید کہا ہے کہ"پارٹی اب ریاست سے بالا رہ  کر کام نہیں کر سکتی۔ اسے لبنانی حکومت کا تابع ہونا پڑے گا"۔

کسی زمانے میں حزب اللہ کو شام کی اسدا انتظامیہ سمیت  علاقائی اتحادوں کا   مضبوط تعاون حاصل تھا لیکن اب یہ تنظیم ایک بدلے ہوئے ماحول میں کام کر رہی ہے۔اس کے  اہم اتحادی یا تو کمزور ہو گئے ہیں  یا پھر اس سے  الگ ہو گئے ہیں اورتنظیم پر  لبنانی دھڑوں اور بین الاقوامی برادری دونوں کی طرف سے سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ عسکری اور سیاسی دونوں لحاظ سے زمین کھو رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جنوبی لبنان میں تنظیم کی کم ہوتی ہوئی موجودگی اور حساس علاقوں سے محدود انخلاء کو ممکنہ طور پر اس کے دوبارہ منّظم ہونے  کی علامت ہے۔ تاہم، چند لوگ ان اقدامات کو غیر مسلح ہونے کی مخلصانہ کوشش قرار دے رہے  ہیں۔

صحافی ایلن سارکیس کہتے ہیں کہ "یہ تاخیر، چھُوٹ  نہیں باقاعدہ  حکمت عملی ہے۔ حزب اللہ دباؤ میں ہے، لیکن یہ ابھی بھی اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے حساب کتاب کر رہی ہے"۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701، جو جنوبی لبنان میں غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرتی ہے، طویل عرصے سے نافذ نہیں ہوئی۔ لیکن، حزب اللہ کے مستقبل کے کردار پر بات چیت پر مبنی،  امریکی-ایرانی بیک چینل مذاکرات کے بعد  بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ نئے نتائج کو جنم دے  سکتا ہے۔

سارکیس کہتے ہیں کہ "شاید کچھ غیر اعلانیہ سفارتی سمجھوتے ہوں، لیکن جب تک حزب اللہ کو پابند نہیں کیا جاتا، لبنان میں اس کی  عسکری موجودگی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچاتی رہے گی"۔

حزب اللہ کی قیادت عوامی طور پر بدستور سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔ حالیہ بیان میں،  تنظیم کے نائب رہنما نعیم قاسم نے غیر مسلح ہونے کے خیال کو مکمل طور پر مسترد کیا اور  اسے “ناقابل قبول” قرار دیا ہے۔ انہوں نے تنظیم کے ہتھیاروں کو نام نہاد “دفاعی حکمت عملی” کا سنگ بنیاد قرار دیا  ہے تاہم  یہ ایک بیانیہ ہے جسے مغربی حکام اور بہت سے لبنانی مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار علی سبیتی کہتے ہیں کہ اگرچہ حزب اللہ خود کو سلامتی کا ضامن قرار دیتی ہے، لیکن یہ دلیل عوامی یا سیاسی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔

سبیتی کہتے ہیں کہ"یہ دعویٰ کہ ریاست اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے بہت کمزور ہے، اب مزید قابل قبول بہانہ نہیں رہا ۔ تنظیم کا، ریاستی کنٹرول سے باہر ،ایک مسلح وجود ایک بنیادی مسئلہ ہے، نہ کہ حل۔”

بین الاقوامی عناصر، بشمول امریکی ایلچی مورگن اورٹیگس، نے اس بات کو دہرایا ہے کہ مستقبل کی امداد حزب اللہ کے غیر مسلح ہونے کے ٹھوس اقدامات پر منحصر ہے، اور کہا کہ تنظیم کو غیر مسلح ہونا ہوگا، ورنہ جنگ جاری رہے گی۔

تاہم، لبنانی ادارے اس مطالبے کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دریں اثنا، حزب اللہ نے ریاستی ڈھانچے میں جزوی انضمام کی تجاویز پیش کی ہیں۔لیکن انہیں بامعنی اصلاحات کے طور پر وسیع پیمانے پر تاخیری حربے کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔

سبیتی کہتے ہیں کہ “یہ ایک سیاسی جماعت نہیں ہے ایک ملیشیا ہے جس کا ایک آزاد عسکری ڈھانچہ اور نظریہ ہے۔ یہ آسانی سے حکومت میں  ضم نہیں ہو سکتی۔”

موجودہ تعطل  ایک اندرونی لبنانی بحث سے زیادہ کی عکاسی کرتا ہے۔یہ علاقائی حساب کتاب، گیس کی تلاش کے معاہدوں، اور توانائی کی سلامتی میں مغربی مفادات میں الجھا ہوا ہے۔ لیکن لبنانی حکومت کے لیے بنیادی مسئلہ واضح ہے اور وہ ہے  ریاستی اختیار سے باہر کام کرنے والا ایک مسلح دھڑا جو  بامعنی بحالی اور طویل مدتی استحکام کو روکتا ہے۔

فی الحال، غیر مسلح ہونے کی باتیں صرف ایک خواہش ہیں۔ لیکن عسکری نقصانات، سفارتی تنہائی، اور اقتصادی زوال کا امتزاج ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ایسا مرحلہ جس میں  حزب اللہ کے ہتھیاروں کے بارے میں جاری ابہام، سیاسی یا اقتصادی طور پر ،مزید قابل برداشت نہیں ہوگا۔

ایسے دور میں کہ جب لبنان اپنے مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، سوال یہ نہیں رہا کہ حزب اللہ غیر مسلح ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا ملک مزید تاخیر کی قیمت برداشت کر سکتا ہے۔

یہ مضمون ایگاب کے تعاون سے شائع کیا گیا ہے۔

دریافت کیجیے
ترکیہ نے  شام  کے علاقے صویدا میں بحران کو حل کرنے کے لیے رو ڈ میپ کا خیر مقدم کیا  ہے۔
ونیزویلا:ہم، امریکہ کے خلاف 'مسلح جدوجہد' کے لیے تیار ہیں
ایران نے E3 کے جوہری مذاکرات کے مذاکرکنندگان کو 'استعمال کرو اور کھو دو' کا انتباہ دیا ہے
زیلینسکی کا اتحادیوں کو انتباہ:  روس پر پابندیوں سے بچنے کے لیے 'بہانے نہ تلاش کریں'
طالبان امریکہ کے درمیان  تعلقات کو معمول پر لانے  اور قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت
نیٹو اور برطانوی سربراہان کا یوکرین کے لیے مضبوط فوجی معاونت کا عندیہ
بھارت نے اسرائیل کے ساتھ سرمایہ کاری کا معاہدہ کر لیا
چین نے تائیوان اور علاقائی تنازعات پر جاپانی قانون ساز سیکی ہی پر پابندیاں لگا دیں
لندن میں ہفتے کے روز فلسطین ایکشن پر پابندی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے
جاپان میں ایل ڈی پی قیادت کی دوڑ میں تیزی
برطانیہ اور دیگر ممالک نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی راہ ہموار کی ہے: سابق یو این رپورٹر
زیلینسکی: روس نے 'آخرکار' یوکرین کے سلسلہ یورپی یونین رکنیت کو قبول کر لیا ہے
روس نے یوکرین کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں کے طور پر غیر ملکی فوجیوں کو مسترد کر دیا
ٹرمپ: میں عنقریب پوتن سے جنگ بندی کے حوالے سے بات کروں گا
فلسطینی حکام کو امریکی ویزے جاری نہ کرنا 'ناقابلِ قبول' ہے، صدرِ فرانس
شہباز اور پوتن نے پاکستان-روس کے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کیا