غزّہ حکومت کے میڈیا دفتر نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بمباری روکنے کی اپیل کے باوجود گذشتہ چار دنوں کے دوران محصور غزہ میں فضائی اور توپ حملوں میں 118 فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے ۔
دفتر نے منگل کو جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ "اسرائیلی فوج ،صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلان کردہ جنگ بندی اپیل کو اور اس تجویز پر پیش کئے گئے مثبت ردعمل کو نظر انداز کر کے غزہ کی پٹی میں ہمارے عوام کے خلاف جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے"۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے، 4 اکتوبر ہفتے کی صبح سے 7 اکتوبر منگل کے اختتام تک ، غزّہ کے تمام صوبوں میں گنجان شہری آبادی والےاور جبری ہجرت کے بعد خالی پڑے ہوئے علاقوں پر 230 سے زائد فضائی اور توپ حملے کر کے "کھُلے قتل عام" کئے ہیں۔
حملوں میں قتل کئے گئے 118 شہریوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ صرف غزہ شہر میں 72 افراد کے قتل کی اطلاع ملی ہے۔
بیان میں اسرائیل کو ان حملوں کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور امریکی انتظامیہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ "جارحیت کو روکنے اور حقیقی جنگ بندی قائم کرنے کے لیے سنجیدہ، مؤثر اور فوری اقدامات کریں۔"
امن مذاکرات
ہفتے کے روز، ٹرمپ نے اسرائیل سے غزہ پر بمباری فوری طور پربند کرنے کی اپیل کی تھی اور فلسطین تحریکِ مزاحمت 'حماس' نے ان کی 20 نکاتی جنگ بندی تجویز پر مثبت ردعمل پیش کیا تھا۔
اتوار کی شام، ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم سے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ ہفتے کے آخر میں جنگ بندی مذاکرات مثبت رہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں"۔
پیر کو اسرائیل اور حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں بحیرہ احمر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کئے تھے۔
مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے منگل کو جاری کردہ بیان میں کہا تھاکہ ان مذاکرات کا مقصد یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے سازگارحالات پیدا کرنا اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مذاکرات، اسرائیلی فوج کی دوبارہ تعیناتی کے لئے نقشے پر اتفاق کرنے کا اور اس صورتحال کو علاقے سے انخلاء کی ابتدائی تیاری بنانے کا بھی ہدف رکھتے ہیں۔
اسرائیل اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں، عورتوں اور بچوں سمیت، 67,100 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر چُکا ہے ۔
اسرائیل، انسانی قتل عام کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی قتل عام بھی نہایت بے شعوری کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھاری دھماکہ خیز مواد کے ساتھ علاقے کی آبادیاتی ساخت کے بیشتر حصے کو تباہ کر چُکا اور عملی طور پر تمام آبادی کو بے گھر کر چُکا ہے۔