شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ، جو سعودی عرب کے مفتی اعظم کے طور پر ایک چوتھائی صدی سے زائد عرصے تک خدمات انجام دیتے رہے اور اس دوران انتہائی قدامت پسند مسلم قوم میں سماجی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، منگل کے روز انتقال کر گئے۔ مرحوم کی عمر 80 سال سے زائد تھی۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہروں کے گھر سعودی عرب میں مفتی اعظم کے بیانات کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے الا سعود حکمران خاندان کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے کے باوجود، جنہوں نے حالیہ برسوں میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دی، سینما گھر کھولے اور دیگر سماجی تبدیلیاں کیں، شیخ عبدالعزیز نے داعش اور القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کی سخت مذمت کی۔
مملکت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جو اپنے 89 سالہ والد، شاہ سلمان، کے تحت روزمرہ کے حکومتی امور چلاتے ہیں، نے منگل کی رات ریاض میں مرحوم مفتی کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
سعودی شاہی عدالت نے اپنے بیان میں کہا، "ان کے انتقال کے ساتھ، مملکت اور مسلم اُمہ ایک ممتاز عالم دین سے محروم ہو گئی ہے، آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔"
نوجوانی میں ہی اپنی بینائی کھونے والے شیخ عبدالعزیز کو 1999 میں سعودی شاہ فہد کے عہدِ حکومت میں مفتی اعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔













